غزل
ضاؔمن جعفری
جہاں چند اہلِ قلم دیکھتے ہیں
ہم اسبابِ وحشت بہم دیکھتے ہیں
نظر بیشتر اِن کی رہتی ہے خود پر
یہ میرؔ اور غاؔلب کو کم دیکھتے ہیں
فروشندہِ حرف تاجر ادب کے
ادب میں بھی دام و درم دیکھتے ہیں
نہ کردار میں ہے تخیّل کا پَرتَو
نہ لوگ اُس میں عکسِ قلم دیکھتے ہیں
نہ آگاہ ہیں کجرَوی سے خود اپنی
نہ یہ مُڑ کے نقشِ قدم دیکھتے ہیں
تماشا کر اے محوِ خنّاس اپنا
تجھے چشمِ عبرت سے ہم دیکھتے ہیں
یہ حالت ہے اب لوگ دانشوَروں سے
’’قیامت کے فتنے کو کم دیکھتے ہیں‘‘
سو حرزِ یمانی کو دم کر کے ضاؔمن
تماشائے اہلِ قلم دیکھتے ہیں
*************