* زندگی کہنے کو بس چار گھڑی ہوتی ہے *
غزل
زندگی کہنے کو بس چار گھڑی ہوتی ہے
پر گزارو تو کئی یُگ سے بڑی ہوتی ہے
عام حالات میں سیلاب کا خطرہ ہی نہیں
جوش آئے تو ندی پوری چڑھی ہوتی ہے
پھول موسم ہوں تو آنکھوں میں ستارے بھردیں
ورنہ پھر عشق میں ساون کی جھڑی ہوتی ہے
ایسے حالات میں غم کون کہے کون سنے
موسمِ درد میں بس اپنی پڑی ہوتی ہے
لاڈلی جن کے گھروں میں ہے ابھی تک بیٹھی
اُن کے سر پر تو بہت دھوپ کڑی ہوتی ہے
ہجر کیا چیز ہے اور کیسے گزرتا ہے سنو
دن گزر جاتا ہے پر رات بڑی ہوتی ہے
ملنا چاہوں بھی اگر اُن سے نہ مل پائوں ضیا
اک نہ اک راہ میں دیوار کھڑی ہوتی ہے
ضیاء الرحمٰن ضیا
Jahangiri Mahalla, Railpar
Asansol-713302
Mob: 9563704690
بشکریہ ’’میر بھی ہم بھی‘‘ مرتب: مشتاق دربھنگوی
………………………
|