donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Shakeb Ayaz
Poet
--: Biography of Shakeb Ayaz :--

 

 شکیب ایاز 
 
 
شیر اسلام ( قلمی نام شکیب ایاز) ولد قمر الدین معروف بہ عظیم الدین ( تخلص مخمور ، شاگرد شاہ باقر) بقول خود ۱۵؍ اکتوبر ۱۹۴۰ء بروز اتوار بمطابق ۱۳؍ رمضان المبارک ۱۳۵۹ھ محلہ باغ کالو خاں پٹنہ سیٹی میں پیدا ہوئے۔ سید شاہ صبیح الحق عمادی، سجادہ نشیں خانقاہ عمادیہ منگل تالاب نے بسم اللہ خوانی فرمائی۔دادی جان محترمہ زیب النساء نے قرآن پڑھایا ، نماز اور فاتحہ خوانی کا طریقہ سکھایا۔ ابتدائی درسی کتابیں والد نے پڑھائیں۔ اس کے بعد انگریزی زبان اور قواعد کی تعلیم حمید عظیم آبادی سے حاصل کی۔ ثاقب عظیم آبادی سے وفارسی اور حافظ عبد المغنی سے عربی پڑھی ۔ محمڈن اینگلو عربک اسکول سے میٹرک اور مگدھ یونیورسٹی سے بی اے آنرز کے امتحانات پاس کئے۔ پٹنہ یونیورسٹی سے ایم اے اردو درجہ اول میں پاس کیا اور گولڈ میڈل حاصل ہوا۔ کلیم الدین احمد کی نگرانی میں سودا کے معاصر وہم مجلس شاہ واقف دہلوی کے صرف ایک قلمی نسخہ دیوان کی تدوین کرکے پٹنہ یونیورسٹی سے ۱۹۸۵ء میں پی ایچ ڈی کی سند لی۔ ۱۹۷۱ء میں اورینٹل کالج پٹنہ سیٹی کے شعبہ اردو میں لکچرر ہوئے۔ اگست 1975 میں ایک سال کے لئے آل انڈیا ریڈیو میں پروگرام ایکز کیو ٹیو ہو کر گئے۔وہاں سے استعفیٰ دے کر واپس اورینٹل کالج آئے وہیں سے جنوری ۲۰۰۱ء میں ریٹائر ہوئے۔ ستمبر ۲۰۰۵ء سے نومبر ۲۰۰۷ء تک بہار اردو کادمی کے سکریٹری رہے۔ فی الحال اورینٹل کالج میں اعزازی لکچرر کے طورپر کام کر رہے ہیں۔ نومبر ۱۹۷۵ء میں صفی پور کے ڈاکٹر نظیر احمد کے بھتیجے نسیم احمد کی بڑی بڑی بیٹی عابدہ خاتون سے شادی ہوئی۔ ان سے ما شاء اللہ دو بیٹے شہزاد اور شہباز ہیں۔ بڑے بیٹے کی شادی ہو چکی ہے جب کہ چھوٹا زیر تعلیم ہے۔
 
شکیب نے پہلی بار انجمن رفیق الشعراء ( قیام :۱۹۲۰) کے طرحی مشاعرے منعقدہ ۱۹۴۹ء میں ساغر عظیم آبادی کے تخلص سے غزل پڑھی ۔ ۱۹۵۸ء کے آس پاس شکیب ایاز کا قلمی نام اختیار کیا اور ثاقب عظیم آبادی سے مشورہ سخن کرنے لگے۔ اردو کی لسانی تحریک سے وابستگی ورثے میں ملی ہے۔ پہلے پٹنہ سیٹی میں بہار ریاستی انجمن ترقی اردو کے سکریٹری (غضنفر نواب دانش کی صدارت میں) اور بعد میںانجمن ترقی اردو بہار کے خازن اور نائب صدر ہوئے۔ مگدھ یونیورسٹی سینیٹ کے ممبر محمڈن ایجو کیشن سوسائٹی ( قیام ۱۸۸۱ئ) کے ممبر اور کتب خانہ انجمن ترقی اردو کے ناظم کی حیثیت سے کام کیا۔ اس کے علاوہ بھی بہت ساری علمی و ادبی انجمنوں سے وابستہ رہے۔ اور اب تک فعال ہیں۔ دراصل شکیب ایاز ان لوگوں میں ہیں جو بزررگوں کی تہذیبی وراثت کو سنبھال کر رکھتے ہیں۔ شکیب نے بھی عظیم آباد کے قدیم بزرگوں کی وضع داری ، شرافت، شائستگی، وضع قطع اور زبان و بیان کو گلے سے لگائے رکھا ہے۔ خانقاہ عمادیہ سے مستقل وابستگی کے سبب ان کے مزاج میں ایک نوع کی بے نیازی بھی پیدا ہو گئی ہے۔ ان تمام پہلوئوں کا مشاہدہ ان کی شاعری خصوصاً غزلوں میں بھی کیا جا سکتا ہے۔
 
شکیب نے غزلیں بھی کہی ہیں اور نظمیں بھی۔ لغت گوئی سے بھی لگائو ہے۔ اور ایک مرثیہ بھی لکھا ہے۔ ان کی غزلوں میں عام طور سے پانچ سات اشعار ہوتے ہیں۔ میری اطلاع کے مطابق غزلوں اور نظموں کی تعداد دو سو سے زیادہ ہے جو ’’ شب خون‘‘ ، آج کل، زبان و ادب‘‘ آئندہ، ( کراچی) شاعر( ممبئی) اور شعر و حکمت ( حیدر آباد)میں شائع ہوتی رہی ہیں۔ مگر مجموعہ کلام ’برعکس‘ جس کے زیر اشاعت ہونے کی اطلاع سلطان آزاد نے دی تھی، اب تک شائع نہیں ہوا ہے۔ ان کی جو تصنیفات و تالیفات زیور طبع سے آراستہ ہو چکی ہیں ان کی مختصر فہرست اس طرح ہے۔
 
(۱) پرویز شاہدی: ایک مطالعہ( مع تبصرہ پروفیسر آل احمد سرور)(۲) ملت( ترتیب) (۳) دیوان راسخ( مع مقدمہ و حواشی) از خدا بخش لائبریری( ۴) ’’ عماد نمبر‘‘ ہفتہ و ارامانت پھلواری شریف ( ترتیب)(۵) ، گوشہ ثاقب عظیم آبادی ، ماہنامہ صبح نو پٹنہ ( ترتیب) 
 
نمونہ کلام کے طور پر ان کی ایک لغت مطبوعہ مباحثہ اور غزلوں کے چند اشعار ملاحظہ ہوں۔
 
انقلاب دنیا میں جو بھی آنے والا ہے
 آپ ہی کی سیرت کا وہ نیا حوالہ ہے
کر بلا کی وادی میں خون کا اجالا ہے
 کیسی تربیت دی ہے کس طرح سے پالا ہے
زندگی اسے کہئے سروری اسے کہئے
 ایک جوکی روٹی ہے ، اک شکستہ پیالا ہے
٭٭٭
فقیر و مست کا دنیا میں اب ٹھکانہ کیا
 سرائے ملک ستم کیا، وزیر خانہ کیا
 کہیں پہ بیٹھ ہی رہنا ہے جب شکیب ایاز
 زمیں کا فرش یہ بادل کا شامیانہ کیا
 ٭٭٭
جلا کر اپنے گھر کو روشنی کے خواب کیا دیکھیں
 دھوئیں کے بادلوں میں رات بھر مہتاب کیا دیکھیں
طلسم جاں بھی اک دھوکا ہی نکلا ہے بصارت کا
 تو جھوٹی آنکھ سے سچے دنوں کے خواب کیا دیکھیں
 
(بشکریہ: بہار کی بہار عظیم آباد بیسویں صدی میں ،تحریر :اعجاز علی ارشد،ناشر: خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ)
 
**********************
 
 شکیب ایاز کی غزل گوئی 
 
 پروفیسر وہاب اشرفی مرحوم
 
شکیب ایاز نے مجھے ایک خط میں لکھا تھا کہ ان کی ’شاعری میں کلا سیکیت تو ہے، رہے گی بھی لیکن میں نے آج کے حالات پر بھی نظر رکھی ہے، کلاسیکیت ہے اور رہے گی، سے شکیب کی کیا مراد ہے واضح نہیں لیکن ان کا بیان صرف یہ ہوتا کہ ان کے یہاں کلاسکیت ہے تو الجھن کی کوئی بات نہیں تھی لیکن یہ کہ اب بھی رہے گی۔ سے مراد آج کے حالات کا انعکاس ہے تو پھر محسوس ہوتا ہے کہ شکیب فنی، یعنی پرانی فنی صورتوں کی ذہن میں رکھ رہے ہیں، اور نئے حالات سے مراد غالباً آج کاا نتشار اور اسی کے متعلقات ہیںمثلاً بھاگ دوڑ ، معاشرتی اور تمدنی احوال کے نئےتناظر، سائنسی انکشافات اور ان کے نتائج، نئے سماجی احوال کے ساتھ نئے افکار یہاں تک کہ نئی ادبی صورتیں ہیںِ ،یہاںکہہ سکتے ہیں کہ شکیب سمجھتے ہیں کہ عروضی حدبندیاں، زبان کاٹکسالی استعمال یعنی لفظوں کے انتخاب میں اسی بنیاد پر توجہ کے علاوہ دوسرے موضوعات یعنی عشق ومحبت ،تصوف، آشوب وغیرہ پر جس طرح پرانے شعرائ ،زوردیتے رہے ہیں وہی ان کے کلام کا وصف ہے، اور نئے موضوعات اور نئی فکر بھی ان کی شاعری میں در آئی ہے۔
 
لیکن میرا مطالعہ بتاتا ہے کہ کوئی بھی مضمون نیا نہیں ہوسکتا، آج کی شاعرانہ کیفیت پر نظر رکھی جائےاور اس کیفیت کو اساتذہ کے کلام میں تلاش کیا جائے تو اردو، فارسی، عربی اور انگریزی کے علاوہ ہندوستان ہی کی کتنی دوسری زبانوں میں مثالیں مل جائیںگی سارے موضوعات برت ڈالے گئے ہیں، اس ذیل میں کہا جاسکتا ہے کہ آج کے سائنسی معاملات پہلے کہاں مل سکتے ہیں، ممکن ہے آسمان پر اڑنے والے جہازوں کا براہ راست ذکر نہ ہو لیکن اڑان کھٹولا توموجود تھا اورکم وقت میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جانے کی سبیل مافوق الفطرت ہی سہی اختراعی ذہن کا کرشمہ ہے داستانوں میں جیسے جیسے تصورات ملتے ہیں ان کو آج بھی شاعری پورے طورپر کھنگال نہیں سکی ہے، کائنات کی گرفت اور اسی کے امور کے باب میں غالب کا ایک شعر اتنا مشہور ہے کہ اسے دہرانے کی ضرورت نہیں ،اگر شمس الرحمن فاروقی کی تنقیدات کا جائزہ لیا جائے تو وہ اکثر شعرا کی بحث میں میر کا کوئی شعر نقل کردیتے ہیں، کبھی کبھی کسی شعر کے تجزئے میں صائب اور دوسرے فارسی شعراکے اشعارکا بدل یا اثرتلاش کرلیتے ہیں، اپنے کلام کے دفاع میں بدرچاچ کا حوالہ دیتے ہیں اور بیدل کا حوالہ دینا تو آج کے بعض نقادوں کا وصف خاص ہے، آگے بڑھئےتو انگریزی شاعروں کے اثرات کی نشاندہی کی جاتی ہے، کہیں کہیں فرانسیسی شعرا وادبا کی شاعری یادوسرےادبی حوالے سامنے آتے رہتے ہیں لایعنی (بظاہر) نگار شات کیلئے بیکٹ اور اس اسکول کے دوسرے فنکاروں کا ذکر عام ہے، حد تویہ ہے کہ مردہ سمندر کو بیکیٹ کے حوالے سے سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے جبکہ اسی کے خالق کرشن چندر اشتراکیت اور ترقی پسندی کے ائمہ میں ہیں، اسی طرح پو، پروست ، جوائس ، جیمز، اسٹرن کے علاوہ انگریزی کے سارے رومانی شعرانیز دوسرے اسکول کے فنکار کاتذکرہ ہوتا رہتاہے، شعریات کی بحثوں میں سنسکرت کے تصورات کی بحث سامنے لائی جاتی ہے،نقادوں کی حیثیت اور کار کردگی کے بارے میں آرنلڈ، ایلیٹ، اپسن، کالرج، ورڈ سورتھ، جونسن اور بہت سے دوسرے نقادوں اورشاعروں کا ذکر ہوتا رہتا ہے۔ نفسیاتی مباحث ہوں یاخالص جنسی، جمالیات کے کیف کا تذکرہ ہو یاادبی اسکولوں پر نظرڈالی جائے، صنفی مسائل ہوں یاان کے ارتقا کا معاملہ سبھوں کیلئے ہم اپنی زبان میں جو کچھ کہتے ہیں اس کا بدل کہیں اور تلاش کرلیتے ہیں۔ مثلاًڈرامے کے مباحث میں شیکسپیئر ناگزیربن جاتا، نئے ڈراموں کے باب میں بہت سے غیر ملکی فنکاروں کی باتیں سامنے آتی رہتی ہیں وغیرہ۔ یہ تفصیل میں نے اسی لیے پیش کی کہ ہر موضوع اور ہر تکنیک کیلئے کوئی نہ کوئی تخلیق ،تحریر یا فنکار ذہن میں آتا رہتاہے، کدم رائوپدم رائو(نظامی)سے لے کر جمیل مظہری تک کی مثنویوں پر ایک نگاہ ڈالیں تو اندازہ ہوگا بہت سے موضوعات جو آج سامنے آرہے ہیں پہلے ہی برت ڈالے گئے ہیں ایسے میں آج کی تھیوری اگریہ کہتی ہے کہ کوئی موضوع نیا نہیں ہے پر کھوں نے سب کچھ برت ڈالاہے، نیاخالق چاہے وہ جس صنف سے تعلق رکھتا ہودراصل وہ نئے ایکوئیشن بناتاہے نئی ترتیب دینا چاہتا ہے، نیا انداز طرزیا بیان سے پرانے موضوعات کو نیا بنانے کی کوشش کرتاہے،کسی مضمون کی توسیع یا اس سے انحراف کی صورتیں پیدا کرتا ہے مجھے اس خیال سے کلی اتفاق ہے کہ کوئی موضوع نیا نہیںہے،پہلے سے برتے ہوئے ہیں، ہاں دیکھا یہ جاسکتاہے کہ اخذواستفادے کا طرز بیان کیسا ہے، اپنے تجربے کے اظہار میں (حالانکہ سارے تجربے سامنے آچکے ہیں)وہ کس حد تک نیا بننے کی کوشش کررہاہے، اگر وہ اپنے طریقہ اظہار میں جدت پیدا کررہاہے تو ممکن ہے کہ اس کی جدت طرازی اچھی نظرسے نہ دیکھی جائے پھر بھی اس کی شناخت ہوگی ہی،چاہے اس کیلئے اچھے یابرے الفاظ استعمال کئے جائیں۔
 
اسی بیان کی روشنی میں، میں لیکن ان کا کلام دور دراز تک نہیں پہنچ سکا ہے، وہ سربرا آوردہ نقادوں کے ذہن میں نہیںرہے ہیں (حالا نکہ اہم محققین سے ان کا رابطہ رہا ہے ) نہ ان کا کلام رسا لوں تواتر سے شائع ہوا ۔در اصل شکیب بے حد بے نیاز شاعر ہیں، اگر انہیں چھپنے چھپا نے سے رغبت ہوتی تو آج کے ذہن نقادان کی طرف توجہ کرتے، ایسا نہیں ہے کہ انہوں نے غزلیں کم کہیں ہیں یا انہیں اپنے آپ پر اعتبار نہیں ۔ ان کے کلام کا سرمایہ خاصاہے (ملاخطہ ہو مجموعۂ کلام’’بشارت‘‘) میں سمجھتا ہوں کہ انہیں اپنے آپ پر اعتباد کچھ زیادہ ہی ہے ورنہ وہ مجھے یہ نہیں لکھتے کہ میں نے کسی کا اثر قبول نہیں کیا ہے، حالانکہ عظیم آباد میں یہ مشہور ہے کہ وہ شاد عظیم آبادی کا اثر قبول کر نے والوں کے آخری شاعر ہیں۔ میں نے ان کے کلام کا مطالعہ قدرے گہرائی سے کیا ہے کہ مجھے اندازہ ہو اکہ شکیب ایاز واقعی کلاسیکی رنگ رکھنے والوں کی صف میں ہیں، ان کی غزلیں نک سک سے درست معلوم ہوتی ہیں، زبان وبیان میں احتیاط کا عنصر غالب ہے، عروضی نکتہ رسی ان کا وصف خاص ہے، الفاظ ایسے استعمال کرتے ہیں جو کسی شعر میں لا تعلق نہیں معلوم ہوتے، محسوس ہوتا کہ ایک مصرع دوسرے سے پیوستہ ہے، اور ہر مصرعے کے الفاظ ایک دوسرے کی معاونت کرتے معلوم ہوتے ہیں، استعاروں اور تشبیہوں میں بھی وہ دور کی کوڑی نہیں لاتے بلکہ ان کی شفافیت ان کے اظہار کو حسی اعتبار سے قابل لحاظ بنادیتی ہے ایسے ہی ابلتے ہوئے معنی گنجلک نہیں بنتے حالانکہ یہ بھی درست ہے کہ عظیم شاعری یا اچھی شاعری دورازکار پیکروں سے ابھرتی ہے، جہاں معنی Fixنہیں ہوتا یا محدود نہیں ہوتا، لیکن کلا سیکیت یہ بھی ہے کہ سامنے کے الفاظ ہی برتے جائیں تو اس انداز سے ان کی معنویت گہری ہوجائے اور لامحدود بھی ۔لیکن یہ سب ممتاز اور بے حد منفرد شاعروں کا وصف ہے۔
 
منفرانداز بیان یا طریقہ اظہار اور کسی مخصوص اسلوب کا تقاضا یہ بھی کہ خالق مختلف زبانوں کے شعری کیف وکم سے باخبر ہو، اسے معلوم ہو کہ میر اور غالب یا کسی بھی شاعر کا اختصاص کیا ہے اور وہ کس طرح وجود میں آیا ہے، مومن کی عشقیہ شاعری اور جگر کی عشقیہ شاعری مختلف ہے، تصوف کے نکات مختلف شعراکے یہاں ایک جیسے نہیں تو پھر فرق کی بنیاد کیاہے؟ فکری نظام کیسے پیدا ہوتاہے، اقبال اور جمیل مظہری کے نظام فکر کی کیا صورتیں ہیں وغیرہ یہ ایسے بہت سے مباحث شعریات سے متعلق ہیں، اگر کوئی بہت مختلف ہونا چاہتاہے تو اسے ان سب نکات کی خبرہونی چاہئے، پھر اثرات تو پڑیں گے ہی ان سے گریز کیسے ممکن ہے، ہو سکتا ہے کہ فنکاریہ سمجھ رہا ہے کہ اس نے کسی سے کچھ اخذ نہیں کیا ہے لیکن یہ امر غیر شعوری بھی ہو سکتا ہے۔ لہذا شکیب ایاز اگر واقعی یہ سوچتے ہیں کہ ان پر کسی کااثر نہیں تویہ درست نہیں ۔ بہر حال میں ایسی تمام گفتگو کو یہیں سمیٹتے ہوئے براہ راست شکیب ایاز کی غزلوں سے رجوع کرتا ہوں۔
 
پہلے ایک غزل ملاحظہ ہو
پیاسی ہے زمیں اور گھٹا ٹوٹ رہی ہے
پر باندھئے موسم کے ہوا ٹوٹ رہی ہے
دو چار قدم ہو تو کوئی لوٹ بھی آئے
اب کس کو پکاریں کہ صدا ٹوٹ رہی ہے
وہ کون تھا جس نے کہ مری آنکھ میں جھا نکا
شفاف سمندر کی ردا ٹوٹ رہی ہے
سیلاب تصور نے شرابور کیا ہے
اب بیچ کی دیوار حیا ٹوٹ رہی ہے
آنگن سے تجاوز ہوئی شہتوت کی ڈالی
اس شاخ کو اتنا نہ جھکا ٹوٹ رہی ہے
کس ملک کو آباد کریں شہر کو چھوڑ یں
دنیا پہ قیامت کی بلا ٹوٹ رہی ہے
 
اب اس غزل کا جائزہ لیجئے تو دوتین باتوں کا ذہن میں آجانا ناگزیر ہوگا۔ مثلاً یہ کہ پوری غزل رواں ہے۔ اور اس میں تھوڑی سی مو سیقیت بھی ہے ہر شعر کے الفاظ ایک دوسرے سے پیوستہ ہیں تشبیہ اور استعار ے بھی قابل لحاظ ہیں۔ الفاظ سامنے کے ہیں لیکن ان کے معنی پھیلتے نظر آتے ہیں یقینی یہ رنگ کلاسیکی ہے لیکن کسی شعر کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ بالکل نیا شعر ہے اس سے پہلے اس طرح کسی اور نے نہیں کہا ہے۔ اگر یہ مان لیں کہ کسی نے نہیں کہا ہے تو پھر اس میں کلاسیکل رنگ کی کیا توجیہہ ہوسکتی ہے۔ ’’زمین پیاسی ہے‘‘زمین اور پیاس کار شتہ بہت پرانا ہے اور ٹوٹ کر برسنا پرا نا محاورہ ہے لیکن یہاں گھٹا کا ٹوٹنا ہے۔ ٹوٹے ہوئے موسم کا تصور قدرے نیا معلوم ہوتاہے۔ ہوا کا ٹوٹنا بھی ایک ایسی ترکیب ہے جو کم استعمال ہوئی ہے اس کے سارے الفاظ ایک دوسرے سے رشتہ رکھتے ہیں۔ شاعر کا مشورہ ہے کہ چونکہ ہوا ٹوٹ رہی ہے اس لیے موسم کے پر کو باندھ دینا چاہئے، زمین پیاسی ہے لیکن گھٹا ٹوٹ رہی ہے یعنی برسنے کانام نہیں لیتی بلکہ ہوا کے سہارے ادھر ادھر بکھر نا چاہتی ہے۔ طرز بیان کی جدت محسوس کی جاسکتی ہے۔ گھٹا کا ٹوٹنا ہوا کا ٹوٹنا ایسی ترکیبیں شاعر کے ذہنی خلاقی کا پتہ دیتی ہیں۔بس بات اتنی ہے کہ ابر آتا ہے اور چلا جاتا ہے اور زمین سوکھی ہی رہتی ہے۔ یہ تو سامنے کی بات ہوئی لیکن معنوی سطح متنوع ہوسکتی ہے۔ اچھے شعر بھی یہ صورت ہوتی ہے جو یہاں بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ دوسراشعر کچھ زیادہ وصف نہیں رکھتا۔ شاعراپنی منزل سے کہیں بہت دورنکل آیا ہے۔ تب اسے بے گانگی اور اجنبیت کا احساس ہوتا ہے۔ لوٹنا چاہتاہے۔ کسی کو آوازدینا چاہتا ہے یا دیتا ہے یعنی صدا لگاتاہے۔ لیکن کوئی قریب ہوتو سنے۔ شعر میں حسن تلاش کیجئے تو لفظی معنویت سے الگ ہونا پڑے گا۔ کہہ سکتے ہیں کہ شاعر ایک ایسی منزل میں ہے جہاں وہ بے بس ہے اور جہاں سے اسے اپنی اور یجنل جگہ پر واپس آنا محال ہے۔ لیکن یہ گذرتی ہوی عمر کی منزل ہے۔ یا عذاب اور گناہ کی یابری عادتوں کی کچھ بھی کہا جا سکتاہے۔ لیکن اشعار کے الفاظ از خود دورنہیں لے جاتے بلکہ ذہن کو فعال رکھنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ چلئے یہی بہت ہے۔
 
تیسرا شعر معنویت کے لحاظ سے نیز تراکیب کی سطح پر خوب ہے۔ لیکن اچھوتانہیں۔پاکدامنی پر کسی وقت بھی ضرب لگ سکتی ہے۔ خصوصاً عشق مجازی کی صورت میں اس قماش کے اشعار بھرے پڑے ہیں۔ پہلی نظر میں گھائل ایک تائب بھی ہوسکتاہے ۔شفاف سمندر کی ردا ایسے مرحلے میں شکستہ ہوسکتی ہے۔ لیکن یہاں شعر کا سوالیہ نشان اسے اہم بنا رہاہے۔ آخر وہ کون تھا۔ کیسی ہستی تھی جس نے بہ یک نظر اس کی ساری شفافیت کو ختم کرنے کا باعث ہوئی۔ یہ ایسا سوالیہ نشان ہے جو لایخل ہے۔ لایخل معنویت کا شعر عام طور سے از خود قابل لحاظ ہو جاتا ہے۔ استعارہ کی نوعیت بھی پر کشش ہے۔ 
 
چوتھا شعر بھی خاصے کی چیز ہے۔ تصور، خیال، تخیل کی رسائی کہیں بھی ہوسکتی ہے۔ خیال خواب سے زیادہ تیز اور پراثر ہوسکتا ہے۔ لیکن یہاں شاعر کے تصور سے زیادہ اس کا سراب تخیل کا م کررہا ہے۔ بیچ میں دیوار حیا تھی وہ آہستہ آہستہ ختم ہورہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ فریب تصور ہے۔ جس طرح سیلاب تصور نے کسی شخصیت کو شرابور کیا ہے وہ ایک منفی کیفیت ہے جس کا اظہارسلیقے سے کیاگیا ہے۔ پانچواں شعر کسی شہتوت کی ڈالی کے سلسلے میں ہے جو آنگن سے تجاوز کررہی ہے۔ اسے جھکا نا اسے توڑ نے کے برابر ہے۔ کیا یہ شہتوت کی ڈالی کوئی حسینہ ہے جسے بس ایک ہی چہاردیواری میں رہنا اور اچھل کود کرنا ہے اور اس سلسلے میں تمام مما نعات سے اسے گذرنا ہے۔ لیکن ایسے مما نعات اسے زیادہ دن روک نہیں سکتے۔ اس لیے کہ اس کے اپنے احسا سات قوی ہوتے جارہے ہیں اور وہ کبھی بھی تمام پابندیوں سے آزاد ہوسکتی ہے۔ چڑھتی جوانی کے قصے بہت کہے گئے لیکن اگر باتیں کنایہ میں بیان کی جائیں تو وہ زیادہ پرکشش ہوتی ہیں۔ گویا شکیب کے یہاں ایک احساس ضرور ہے کہ الفاظ اور معنویت میں رشتہ تو ہولیکن وہ اتنا کھلا ہوا نہ ہو کہ نثری معلوم ہو۔
 
آخری شعر آج کے زمانے کے بارے میں ہے اور بس اتنا کہنا ہے کہ ہر جگہ انتشار ہے۔ کہاں سکون ہے ، کہاں امن ہے، جہاں انسان چین سے زندگی بسر کرے۔ یہاں اظہار نثری اور سپاٹ ہوگیا ہے اور شکیب کے اپنے مزاج سے الگ ہے۔
 
فنی اعتبار سے محسوس کیا جا سکتاہے کہ اکثر اشعار میں جو الفاظ ہیں ان کے دروبست میں ہم آہنگی ہے۔ ٹھیک ہے کہ بعض لفظ کے استعمال پر گرفت بھی کی جاسکتی ہے۔
 
لیکن یہ لایعنی بات ہوگی شکیب ایاز ایک چابکدست شاعر کی طرح لفظوں کو معنویت کے لحاظ سے وسعت دے دیتے ہیں۔ ان کے اٹوٹ روابط پر خاص نظر رکھتے ہیں۔ عروضی سطح پر کہیں جھول نہیں۔ بحر مترنم ہو، اس کا وہ لحاظ رکھتے ہیں چنانچہ ان کے اشعار میں صوتی کیفیت پر کشش بن کر ابھر تی ہے۔ یہ ان کی غزلوں کا وصف خاص ہے جس پر الگ سے بحث کی جاسکتی ہے۔
 
ایک اور غزل پیش کرتاہوں، طرز اظہار پرتوجہ کیجئے۔
 
کیا رات کی کتاب ہیں چہرے نئے نئے
کھلتے ہیں روشنار دریچے نئے نئے
کیا ہے کہ ان کے نام پہ آتی ہے شام بھی 
پلکوں میں ٹانکتی ہے ستارے نئے نئے
خوشبو سے میری سانس نے کی ہے مراسلت
میں نے کہے ہیں عشق کے قصے نئے نئے
دریائے خشک حال سے پوچھا نہیں گیا
کس نے بنادیئے ہیں جزیرے نئے نئے
موسم نیا لباس بدلنے کو آئے ہیں
اگنے لگے درخت میں پتے نئے نئے
اٹھئے شکیب ایاز کہ اب بھور ہوگئی
پڑھنے لگے پرند وظیفے نئے نئے
 
اس پوری غزل کے بارے میں، میں کچھ نہیں کہنا چاہتا۔ لیکن آخری دواشعار میں جو فنی ریاض پر ضرب لگتی محسوس ہوتی ہے۔ اس ذیل میں، میں خود شاعر کی رائے جاننا چاہتا ہوں۔ یہاں موسم جمع کیوں ہے اور پرند کا لفظ آخری شعر میں گراں بار نہیں معلوم ہوتا کیا؟کلاسیکی سیم و میم کے شاعر اس باب میں کیا کہتے ہیں۔ اس لیے کہ نکتہ ہاہست بسے محرم اسرارکجا است۔ اب تب ان کی مختلف غزلوں سے چند اشعار پیش کرتاہوں، جو ان کے فن کے رموز کوبھی عیاں کررہے ہیں اوران کی فنی گرفت پر بھی دال ہیں۔
 
طلسم جاں بھی کیا ہے ایک دھوکا ہے بصارت کا
توجھوٹی آنکھ سے سچے دنوں کے خواب کیا دیکھیں
+++
یہ کاروبار مرے دل نے انتخاب کیا
جبیں حرف پہ لکھ کر اسے کتاب کیا
+++
شام ہوتے ہی مرے ذہن کی دیواروں پر
پھیل جاتا ہے ترے رنگ کا سایہ کوئی
+++
رات کی ساری سیاہی کو میں دھو جائوں گا
سر کو رکھ کر سر دیوان میں سو جائوں گا
+++
رت جگے ساون کے یاد آتے ہیں جب 
جسم کی لو تیز کرتی ہے ہوا
+++
تم سے یہ دھوپ کڑے وقت کا جزیہ لے گی
اب جہاں بھی پس دیوار جگہ پائوگے 
+++
جو ہو بے سایہ وہ پیکر رکھ لیں
پھر قدم گھر سے بھی باہر رکھیں
+++
وہ سانس لے رہا ہے مگر زندگی کہاں
شیشے میں بند لاکھ کا پیکر ہے سامنے
+++
چیخوں کے اژدھام میں گم ہو گئے تھے ہم
اخبار بے حروف تھے، چہرہ نقیب تھا
+++
بھیڑ اتنی ہے کہ خود اپنا سفر بھاری ہے
مجھ کو ڈھونڈھو گے تو ہلکان ہی ہوجائوگے
+++
کسی نے ایسا طلسم یقین نہیں دیکھا
کہ اس کے بعد اسے پھرکہیں نہیں دیکھا
+++
ہم پرندوں کی طرح دائمی بنجارے ہیں
شہر چھوٹے تو مقرر ہوئے ویرانوں میں
+++
گھر جو لوٹے تو ملے غیر کے سامانوں میں
پھول کچھ چھوڑ کے آئے تھے جو گلدانوں میں
+++
ایسی چوری روز کرتی ہے ہوا
تتلیوں کے پرکترتی ہے ہوا
+++
کبھی تو لوٹ کے آئے گا وہ وطن کی طرف
چراغ وصل ہیں گردش میں انجمن کی طرف
+++
صدائے گل فروشاں مجھکو گھر جانے کو کہتی ہے
نئی تتلی مگر اس گل پہ مرجانے کو کہتی ہے
+++
ہوئی ہے شام تو آراستہ قطاریں ہیں
پرند جانے لگے سوہئے آشیانہ کیا
+++
 
میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ شکیب ایاز نے کلا سیکی شعر اکا بطور خاص مطالعہ کیا ہے۔ ان کے اشعار میں کئی اہم شعرا گونجتے نظر آتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ انہوں نے شعوری طورپر کسی شاعر کو جذب کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن کلام کا متنوع کلاسیکی مزاج غیر شعوری اثرات کو واضح کر رہاہے۔ اس بات سے شکیب ایاز کی اہمیت کم نہیں ہوتی۔یہ اور بات ہے کہ ان کے یہاں آج کے زمانے کے تنائو کی خبر کم ملتی ہے۔ اور کوئی ضروری نہیں کہ ہر شاعر وقتی ہیجان کا شکار ہو اوراپنی شاعری میں اسے جز وخاص بنانے پر تلا رہے۔
 
+++
 
 نئی شاعری کی بشارت 
 
 شفیع جاوید
 
بانکی پور سے پچھم دروازے کی طرف جب بھی میرے قدم اٹھتے ہیں تو مجھ پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ لگتا ہے جیسے ہر من وہنس کا سفر مشرق ہو۔ روح کے غسل کا سفر۔ راستے م یں ملنے والی پرانے پرانے مکان، جھکی جھکی ہوئی بالکنی، لکڑی کے باریک کاموں کی جالیاں، زمانوں کے سردوگرام جھیلے ہوئی کچھ شکستہ اور کچھ بچی ہوئی برجیاں، کچھ خستہ جھروکے، ٹیڑھی میٹرھی لاہوری اینٹوں کی دیواروں پر کھپریل کی چھائوں، پتلی پتلی گلیاں، خم کھاتی ہوئی، گم ہوتی ہوئی، کبھی ایک پہلو نمایاں کبھی دوسرا پہلوپوشیدہ۔ ہمیں ان گلیوں میں اکثر عجیب سی سرگوشیاں سنائی دیتی ہیں، جیسے طہران کی مسجد کے ویران سناٹے صحن میںمختار مسعود نے محسوس کیا تھا کہ وہاں تھا تو کوئی نہیں لیکن لگتا تھا کہ مجلس قائم ہے، ہرگوشہ پر ہردیوار بولتی ہوئی سی ،جانے کہاں کہاں سے آوازیں آرہی تھیں۔ ایسا ہی کچھ ہوا ہرمرتبہ میرے ساتھ بھی کہ جب بھی شہر عظیم آباد کی طرف میرے پائوں بڑھے تو ایک داستان گو ساتھ ہوگیا اور ساتھ ساتھ چلنے والا ورق گرداں بھی اپنا کام کرنے لگا۔ کچھ ایسا ہی ہواتھا۱۹۶۷کی جاتی ہوئی گرمیوں کی ایک سہ پہر کو کہ ہم سب ایک ساتھ راجندر نگر سے پٹنہ سیٹی کیلئے نکلے تھے، وہ زمانہ ہمارے بھرے پرے گھر کاتھا، ہم بہت سے لو گ ساتھ گئے تھے، باغ کالوخاں میں یوسف چچا اور پتو چچی کے یہاں دونوں طرف سے خاندان کے درجن سے بھی کچھ زیادہ ہی افراد، اونچی آوازوں میں زور زورسے گفتگو، پرانی باتوں، پرانے قصے قضے کی یادیں، نئی باتوں کی تلاش اور ان سب کے باوجود دستان گومیرے ساتھ تھا اورورق گرداں اپنا کام کئے جارہاتھا، اورمیری کھوئی کھوئی سی خاموشی انہیں ریکارڈ کئے جارہی تھی۔ بہت سی لڑکیاں، بہت سے لڑکے، کئی بزرگ ، یوسف چچا اور ہم ’ارول‘آرہ اور گیا کی گفتگو ایک سلسلہ تھا جو رکتا ہی نہ تھا، چائے کے بعد مجھے سگریٹ کی ضرورت محسوس ہوئی۔ رکھ رکھائو کا زمانہ تب تک قائم تھا۔ بڑوں کے درمیان سے ہم باہر نکل آئے۔ سامنے مٹی کا چھوٹا ساٹیلہ تھا میں نے سوچا اس کی دوسری طرف کی جگہ ٹھیک رہے گی۔ اس طرف بڑھے تو دیکھا ایک چھریرا خوبصورت، گندمی سانو لانوجوان بڑے پرکشش انداز میںسگریٹ نوشی میں مصروف ہے۔میں اپنی جیب سے سگریٹ نکالنے ہی والا تھا کہ اس نے اپناپیکٹ پیش کردیا۔مجھے کچھ عجیب سا لگا کہ انجانے میں بھی ایسا اخلاق؟ ہمارا تجربہ تھا کہ نئے لوگوں کو مرعوب کرنے کیلئے تو احباب اپنے کالروں پرمزید کلف لگایاکرتے تھے اور یہاں یہ بے ساختگی جیسے ہم برسوں سے ایک دوسرے سے بے تکلف ہوں۔ہم کچھ ہچکچائے توکہا گیا ’’میں شکیب ایاز ہوں اورجانتاہوں آپ شفیع جاوید ہیں۔ آپ لوگ پتو پھوپھی کے یہاں آئے ہیںنا؟آپ کے اس قدر تذکرے یہاں ہوتے رہے ہیں کہ ہم آپ سے پورے طور پر متعارف ہوچکے ہیں۔ یہ میری اور شکیب ایاز کی پہلی ملاقات تھی اور ایسا لگا کہ آنکھ نہ جانے پردل پہچا نے والی بات ہے۔ داستان گونے ہلکی سی سرگوشی کی’’عظیم آباد کی خاک ہے۔
 
اس کے بعد غالب صدی کی دن آگئے، وہ ۱۹۶۹کا سال تھا، سردیوں کے ان دنوں میں ہم جیسے پر اگندہ طبع لوگ اکثر سیاہ شیروانی پہنا کر تھے۔ پٹنہ یونیورسٹی کے سینٹ ہال میں غالب صدی کا پروگرام چل رہاتھا کہ اچانک مجھے لگا میں آئینے کے سامنے ہوں شکیب ایاز سیاہ شیروانی میں ملبوس سامنے کھڑے مسکرارہے تھے۔ قرابت تو تھی ہی اب کے دل کی راہیں بھی شاید مل گئیں۔ کئی ادبی نشستوں میں خوب ملاقاتیں رہیں کہ ان دنوں ہم پٹنہ کی ادبی نشستوں میں تو اتر سے شریک ہوا کرتے تھے اور ان ہی دنوں میں شام راجندر نگر میں میری رہائش گاہ پر ایک یاد گار ادبی نشست ہوئی جس میں شکیب ،محمد حسن اور قاضی عبدالستار کو ساتھ لے کر آئے، وہ ایک تاریخی اور معرکتہ الآرا ادبی نشست اس معنی میں تھی کہ پٹنہ کے تقریباً سبھی نمایاں اورنوجوان لکھنے والے موجودتھے اور ادب کے نئے اور پرانے موضوعات پر بہت واضح طورپر اورکھل کر باتیں ہوئی تھیں اور دیر رات تک ہوتی رہی تھیں۔ جب یہ نشست ختم ہوئی تو شکیب ایاز کی ادب شناسی اور شعری حسیت کے تاثرات ہم پردوچند ہوئے اور ہم پریہ بھی کھلا کہ شرافت، ذہانت اور متانت ان کی شخصیت کا خمیر ہیں اور اس تثلیث پر مستزادہے ان کا دل بسمل ان ہی دنوں شب خون میں ان کی مشہور غزل آئی تھی، جسے ہم لوگوں نے ضد کرکے اس نشست میں پڑھوایا تھا غزل کے سوز اور شکیب کی آواز کی غنائیت نے ہمارے دلوں پر دستک دی تھی اور وہ ڈھیر ساری داد لے کر اٹھے تھے۔ غزل کے چند اشعار ملاحظہ ہوں۔
 
لفظ کا خالی کاسہ مجھ سے
مانگے معنی کی خیرات
پندار تنہائی ٹوٹے
سائے سے کرتا ہوں بات
سپنوں نے بخشا تھا کیا کیا
آنکھ کھلی تو خالی ہاتھ
 
احمد جمال پاشا بھی اس محفل میں موجود تھے اور گل وگلزار کی کیفیتیں برپا کرکرنے میں مصروف تھے کہ ان کے اصرار پر بطور خاص شکیب نے یہ دو اشعار بھی سنائے جن سے ان کی یکتائی واضح اور جدید حسیت مستحکم ہوئی۔
 
رنگ ذہن عدو نے ایسا بھرا
میری تصویر بے مثالی ہوئی
ختم ہوتے ہی چائے کی دعوت
پر تکلف نگاہ خالی ہوئی
 
تخلیقی منزلوں کو قطع کرنے کیلئے ضروری ہے ممکنات اور امکانات کی تلاش ہمیشہ جاری رکھی جائے۔ شکیب ایاز نے اپنے اشعار میں ان امکانات اور ممکنات کی کوششیں ہمیشہ جاری رکھی ہیں۔ ادا جعفری نے ادب وشاعری کے لئے جن نکتوں اور جن پہلوئوں پر روشنی ڈالی ہے وہ یوں ہے کہ شاعری بھی زندگی کی طرح کسی ایک موڑ پر ٹھٹھک کر کھڑی نہیں رہ جاتی۔ ہر عہد کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں اور ہر عہد کی شاعری اپنی ترجیحات خود متعین کرتی ہے۔ کبھی ارادی اور کبھی غیر محسوس طور پر شعر وادب کی دنیا مسلسل تغیر آشنا رہی ہے۔ نئی لفظیات کا دور آتاہے۔ نئے محاورے جنم لیتے ہیں۔ کچھ الفاظ اور رویئے اپنی عمر پوری کرچکے ہوتے ہیں۔ تخلیق ادب اور زبان دونوں کے تسلسل اور قیام کا ثبوت بھی یہی ہوتا ہے۔ شاعری اپنی سوانح عمری بھی ہوتی ہے اور اپنے عہد کے شب و روزکا منظرنامہ بھی ان جملوں کے تناظرمیں شکیب ایاز کے یہ چند اشعار ملاحظہ ہوں۔
 
یہ کاروبار میرے دل نے انتخاب کیا
جبین حرف پر لکھ کر اسے کتاب کیا
+++
وہ ڈھونڈتا رہا مجھ کو جہان معنی میں
وہ میں ہی تھا کہ جسے میں نے دستیاب کیا
+++
عہد کے تقاضے جدید حسیت، اپنے عہد کے شب وروز کا منظر نامہ اور نئی لفظیات کے ذائقے ان اشعار میں نئے امکانات کے ساتھ کس قدر واضح ہیں۔ 
ورق دہر پہ تحریر جنوں لکھ دینا
دونوں آنکھوں کو قلم دان پہ رکھ دیتے ہیں
+++
فضا میں بولتے ہیں تتلیوں کے پر جیسے
رواں ہے کرمک شب تاب ، پھول بن کی طرف
+++
پہر ڈھلے یہاں ہوتی ہے زمزمہ خوانی
چمن کے فرش پہ آمد کسی سفیر کی ہے
+++
اور غزل کے تعلق سے لفظیات کے نئے تجربے
ہم نے دیا مزاج ہنر لفظ لفظ کو
ہم سے نئی غزل کی شریعت ادا ہوئی
+++
جلوس کم ہنراں اس کے دائیں بائیں ہے
بڑھا جو میں تو یہیں بھیڑ راستہ دے گی
+++
چہر ہ چہرہ غزلیں نظمیں، نظریں نظریں افسانہ
فن نے کیسا روپ لیا ہے تم بھی چپ اور ہم بھی چپ
کیا رات کی کتاب ہیں چہرے نئے نئے
کھلتے ہیں روشنار دریچے نئے نئے
+++
اٹھئے شکیب ایاز کہ اب بھور ہوگئی
پڑھنے لگے پرند وظیفے نئے نئے
+++
 
قدرت بیان اور خیال آمیزی سے معمور یہ اشعار گویا عالم ظاہر میں باطن کی ہوائوں کا چلنا ہےاور ان کو پڑھنا میرے لیے ایک وجد آفریں تجربہ ہے یہ احساس کی ایک سطح ہے کہ تم بھی چپ اور ہم بھی چپ کہ بھور ہوگئی، کوئی کچھ نہ سن سکا ، نہ کہہ سکا، پھر بھی سب کچھ کہہ دیا گیا ہے بے چین کردینے والی خاموشی کے درمیان، پرندوں کے نئے وظیفوں کے درمیان بھور کے آلوک میں ان دل نشیں اشعار کے لئے یہی کہا جاسکتاہے کہ جذبے کی صداقت ہی اچھی شاعری کی ضمانت ہوتی ہے۔ یہ جونئے نویلے انداز ہیں وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ تحربہ کا سحر تو در اصل یہ ہے کہ ہم محسوس کریں کہ اس سے پہلے یہ بات اس طرح نہیں کہی گئی ہے۔ ہمارے سامنے جو جدید شاعری آرہی ہے ، یہ اس کی ایک جاندار اور پرکیف کڑی ہے۔ یہاں وقت، مقام جذبہ اور ذہنی تجربہ ہے وہ تخلیقی لمحوں کا گراں مایہ سرمایہ ہے۔ یہ Reflectiveتخلیق کاری ہے۔
ایک شنا سا نے کبھی کہا تھا (یہ بہت دور دنوں میں سے ایک دن کی بات ہے) کہ شکیب تنہائی کے شاعر ہیں، میں خاموش رہ گیا تھا راون کی لنکا میں تو سب ہی باون گزے ہیں، کچھ دنوں بعد منیر نیازی کے سلسلہ میں احمد ندیم قاسمی کی یہ تحریر میری نظر سے گذری بعض اصحاب کہتے ہیں کہ منیرنیازی تنہائی کا شاعر ہے۔ مشکل یہ ہے کہ ہر اچھا شاعر تنہاہی ہوتا ہے۔ وہ اپنے گرد وپیش کی صورت حالات پر قناعت نہیں کرسکتا اس لیے تنہاہے، وہ اس بدصورت دنیا میں خوب صورتیوں کا متلاشی ہے اس لیے تنہاہے۔ اب اس شعر کو دیکھئے کہ جمالیاتی تاثرات کے ساتھ شکیب کس طرح تنہا ہیں۔
 
میں زرد شاخ گل کا نہایت اداس پھول
دنیا وہ تیز وتند سا جھونکا کہ دم نہ لے
 
مانوس طرز فکر اور رندے ہوئے اسلوب سے کنارے ہو کر فکر واستغراق میں ڈوب کر یہ شعر کہنے کی سعی کی گئی ہے۔ جدید رخ کے حامل ہوتے ہوئے بھی شکیب ایاز کے یہاں منفی اثرات نہیں ہیں بلکہ وہ بصیرت ہے جوفکر و تامل کی منزلوں سے گذرتی ہوئی نیا تخلیقی ذائقہ مہیا کرتی ہے۔یک رنگی اور یکسانیت سے کوسوں دور شخصی تاثر اور انفرادی احساس ان کی بساط شاعری کے امتیازہیں، شکیب صرف اپنے داخل میں پناہ گزیں نہیں ہیں بلکہ خارجی اثرات سے بھی ان کے اشعار مرتب ہیں کیونکہ وہ زندہ اور زندگی خیز رویوں کے تخلیق کار ہیں۔ 
 
جہاں پہ نقش قدم آپ چھوڑ جاتے ہیں
وہیں پہ ٹھہری ہوئی کائنات بھی ہوتی ہے
+++
میں گھر گیا ہوں رنگ سفید وسیاہ میں
وہ خوش ہے زعفران کی ایک شاخ توڑ کر
+++
 
جو لوگ یہ سوچتے ہیں کہ زندگی اپنی معنویت کھوچکی ہے وہ صرف ایک حد تک ہی درست کہے جاسکتے ہیں۔ ایسے لوگ صدفی صددرست نہیں ہیں کیونکہ زندگی کو نئے معنی بھی مل جاتے ہیں، نیا راستہ بھی آجاتا ہے ، نئی روشنی بھی مل جاتی ہے۔ شاید ایسے ہی پہلو کی وضاحت کے لیے محمد سلیم الرحمن نے ایک موقع پر یہ لکھا تھا کہ کہتے ہیں کہ عالم بالا میں ایک بہت پھیلائو والا گھنا درخت ہے جس پر ہمیشہ ایک ہی وقت میں خزاں اور بہار چھائی رہتی ہے ۔جب تیز ہوا کے جھونکے آتے ہیں تو سکھی اور مرجھائی ہوئی پتیاں ٹوٹ کر گر جاتی ہیں۔ ٹوٹا پتہ ڈال سے لے گئی پون اڑا زندگی کی سوکھی پتیوں اور ہر پتیوں کا کھیل ہمیشہ جاری ہے۔ زندگی وہ فینکس ہے جو راکھ بھی ہو جاتی ہےاور پھر اپنی راکھ سے پیدا بھی ہو جاتی ہے اور شکیب ایاز اس دھوپ ہے جو راکھ بھی ہو جاتی ہے اور پھر اپنی راکھ سے پیدا بھی ہو جاتی ہے اور شکیب ایاز اس دھوپ چھائوں کی کیفیت کو اپنے اشعار میں یوں پیش کرتے ہیں۔
 
اب پرندے پھر ہوا میں تیرنے کی ضد میں ہیں
جب نکل آئے انہیں کچھ بال وپر اچھا لگا
+++
کہاں سے باد صبا گل کتر کے آئی ہے
جھکی ہوئی نئی خوشبو ہے پیرہن کی طرف
بسر کریں گے کرائے کے شامیانے میں 
مرامکان میری لاش بونے والاہے
+++
کسی دریائے بے پایا میں اتریں ،ڈوب جائیں ہم
یہ آب جوہے، اس میں گردش سیلاب کیا دیکھیں
+++
 
اطہر فاروقی سے گفتگو کرتے ہوئے اختر الایمان نے عمدہ شاعری کیلئے کچھ اہم نکتوں کی طرف یوں اشارہ کیا تھا۔
اچھی شاعری کیلئے پہلی لازمی شرط یہ ہے کہ وہ روایتوں کی حدودسے انحراف تو کرتی ہو مگر شاعر روایتوں سے کما حقہ واقف ہو اچھی شاعری کی دوسری شرط شاعری کا نیا پن ہے، میں شاعری کو مذہب کی طرح مقدس اور مکمل انہماک سے کرنے کی شئے سمجھتا ہوں،ہندوستان کا موجودہ معاشرہ بہ حیثیت مجموعی اپنے ماضی سے بالکل مختلف ہے۔ معاشرے میں ہر سطح پر شکست وریخت کا عمل جاری ہے جو بالکل فطری بات ہے اسی لیے ہندوستانی زبانوں کے ادب  میں آپ کو کہیں بھی باسی پن نظر نہیں آئے گا،شاعری نام ہے پوری فہم وادراک کے ساتھ زندگی کے مسائل کا بیان اور اس کیلئے بڑی ریا ضت کی ضرورت ہوتی ہے۔
اختر الایمان نے یہ جو اچھی شاعری کے معیار قائم کئے ہیں ان پر شکیب ایاز کے یہ اشعار بھی کھرے اتر تے ہیں۔
 
وہ رات جو آنے والی ہے وہ رات بہت ہی کالی ہے
لودھیرے دھیرے تیز کروڈرتے ہیں چراغ شام سے ہم
+++
ویران حویلی روتی ہے سناٹے ماتم کرتے ہیں
اس شہر کے ملبے کہتے ہیں واقف ہی نہ تھے انجام سے ہم
+++
کبھی تو لوٹ کے آئے گا وہ وطن کی طرف
چراغ وصل ہیں گردش میں انجمن کی طرف
+++
کسی نے ایسا طلسم یقین نہیں دیکھا
کہ اس کے بعد اسے پھر کہیں نہیں دیکھا
+++
ستارے ٹوٹ کے گرتے تھے جانماز پہ رات
کہ ایسا عرش نے صاحب جبیں نہیں دیکھا
+++
 
غرض یہ کہ یہاں روایتوں کی پاسداری بھی ہے اور ان سے شکیب ایاز نہ صرف متعارف اور واقف ہیں بلکہ ان کی آبیاری میں بھی مصروف ہیں، پوری فہم اور ادراک اور مکمل انہماک کے ساتھ ہم یوں کہیں کہ یہ اشعار ریاضت کے وہ موتی ہیں کہ جنہیں شان کریمی بھی منتخب فرمالیں تو تعجب نہ ہو۔
آج یہ لکھتے ہوئے اچانک کسی شاعر کا ایک مصرعہ یاد آگیا۔
اک مہک سی دم تحریر کہاں سے آئی
اور ساتھ ہی پشتوکے ایک شاعر کا یہ کہا یاد آیا۔
اے خد امجھے گلاب بنادے کہ میں محبوب کی آغوش میں پتی پتی ہو
کر بکھرجائوں۔
اور اب اس پس منظر میں ایاز کا یہ شعر حاضر ہے۔
کہ میری سانس میں خوش بو اسی کے نام کی ہے
اسی کا عکس بہت دورتک سفر میں رہا
+++
اوریہ شعر؎
صدائے گل فروشاں مجھ کو گھر جانے کو کہتی ہے
نئی تتلی مگر اس گل پہ مرجانے کو کہتی ہے
اب ان تیس پینتیس برسوں کے بعد شکیب ایاز پر کچھ لکھنے بیٹھا ہوں تو لگتا ہے کہ اپنے آپ کو Rewindکررہاہوں۔ اس لیے میری یہ ناچیز تحریر نہ تو شناس نامہ ہے اور نہ سپاس نامہ، یہ تو صرف اعتراف ہے دل پہ ترازوہونے والے ان چند اشعار کا جن کی بیاض ابھی بھی تیاریوں کے مراحل میں ہے کیونکہ شکیب ایاز ہم سے بھی زیادہ لاپرواہ ہیں، کہ میرتقی میر جب اپنا دیوان پچپن سال کی عمر میں شائع کرانے والے تھے تو اگلے وقتوں کے لوگوں نے کہاتھا کہ انہیں اتنی جلد کیوں پڑی ہے ابھی تو انہیں مزید اشعار کہنے چاہئیں تاکہ ان کے فن پر اور صیقل ہو جائے اور دیوان میں اچھے اشعار کا انتخاب ہوسکے، شاید ایسا ہی کچھ رہاہے کہ شکیب کی بشارت کی اشاعت میں تاخیر پہ تاخیر ہوتی چلی گئی ہے، آج ان دوردنوں کی یادوں کے ساتھ بہت کچھ یاد آرہاہے، انجمن ترقی اردو،بہار پٹنہ کی نشستیں اور ان کے پروگرام ،رانچی میں جب شکیب آل انڈیا ریڈیو میں P.Ex.کے عہدے پر مامور تھے تو وہاں کی نشستیں ، پرکاش فکری، وہاب دانش وحید الحسن اور طارق ندیم کی صحبتیں ، وہ بے فکر قہقہے ، وہ بے ریا ملنا ملانا، رانچی کی بارشوں میں بھیگنا، ٹھنڈک سے وہاں کی بچتے بچتے چلنا اور گیا کے میرے دورے، کلام حیدری، غیاث احمد گدی، افصح ظفر، وہاب اشرفی کی صحبتیں ، رسالہ آہنگ کو خوب سے خوب تربنانے کے منصوبے، پٹنہ میں خدا بخش لائبریری میں آہستہ خرامی، اور ریڈنگ روم میں سرگوشیوں کی حدتک دھیمی آوازوں کی گفتگو، کنکڑباغ کی میری رہائش پر شمس الرحمن فاروقی کے ساتھ بیٹھنا اور نئے عزائم کا اعادہ، بہار اردو اکادمی کا معرکتہ الآرافکشن سمینار، اردو بازار اوربک امپوریم اور پٹنہ مارکیٹ کے چکر، اس مختصر سے مضمون میں جتنا کچھ یاد آرہاہے، ان سب کو سمیٹنا بہت مشکل ہے، بہت سی آوازیں آرہی ہیں، کبھی قیوم قائد ابھر رہے ہیں، کبھی پروفیسر نرمادیشور پرسادسامنے آجارہے ہیں،کبھی مظہر امام کی قیام گاہ مسکن کوٹھی ایک منظر بنا جاتی ہے جہاں ہم بہت سے اکٹھے بیٹھے ہیں، احمد یوسف ہیں، حسن نعیم ہیں، انور عظیم ہیں اور اتنے سارے ہم سب کہ میری آنکھیں جھلملائی جارہی ہیں اور آپ واقف ہیں نا؟کہ بھگی ہوئی آنکھوں سے کچھ دیکھنا بڑا مشکل ہو جاتاہے اور ان سارے مقامات و معاملات میں شکیب ایاز ہمارے شانہ بہ شانہ رہے کل کیا ہو پتہ نہیں ہم رہیں نہ رہیں لیکن شکیب ان شااللہ اس باب میں مجھ سے جو کچھ چھوٹ رہا ہے وہ ضرور قلم بند کردیں گے کیونکہ۔
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوںگے کوئی ہم ساہوگا
(ناصرکاظمی)
اس پوری مدت میں اب تک میں شکیب ایاز کو جتنا کچھ جان سکا ہوں اس کا سب سے اہم پہلویہ ہے کہ ذاتی مفاد کی قربان گاہ پر انہوں نے ضمیر کو کبھی قربان نہیں کیا، کچھ لوگوں کا ذائقہ ازل سے ہی خراب آتاہے کہ شہد کی بوندوں میں بھی تلخی نکالتے ہیں شکیب کو ہم نے ہمیشہ سرتا سر خوش ذائقہ پایا، خوش گفتار بھی اور وضعدار بھی۔ انہیں چشمہ آب حیات کی تلاش نہیں بلکہ آبشار محبت کی تلاش رہی ہے۔ انہیں سکہ رائج الوقت ہونا کبھی نہ آیا کیونکہ اس کیلئے ضروری ہے کہ ہاتھ باندھے کمر خمیدہ کھڑے رہتے شکیب حسن نعیم کی روایت سے بندھے ہوئے رہے ہیں اس لیے ان سے یہ کبھی ممکن نہ ہوسکا شاید اسی لیے حسن نعیم فنی اور شخصی دونوں اعتبار سے ان کے معترف بھی تھے میرا ذاتی خیال ہے کہ غیر شعوری جذبات شاعری کا امتیاز ہوتے ہیں یہ کفیت شکیب کی پوری شاعری پر محیط ہے اس کے علاوہ وہ برہنہ کہنے کے شاعر نہیں ہیں ان کی شاعری مستور ہے انہوں نے اپنی حرمت اور عزت نفس کو ہمیشہ بچا ئے رکھا تکلف اور تصنع کا ورق کبھی نہ چڑھا، ہاں محتاط ہمیشہ رہے لیکن شائستگی کا دامن کبھی نہ چھوٹا، شاعری کی منزلیں انہوں نے دیدہ دل سے طے کی ہیں، خوش فکری ان کی شاعری کا نمایاں وصف ہے فن اور زندگی جب ایک دوسرے میں تحلیل ہو جاتے ہیں تو ایسے اشعار ہمیں پڑھنے یاسننے کو ملتے ہیں، شکیب ایاز کے یہ اشعار ان کی اپنی ذات کے ساتھ ساتھ زمانے کے گرد بھی گردش کرتے ہیں، ان کے یہاں شخصیت اور شاعری ایک دوسرے سے اس طرح گندھے ہوئے ہیں کہ یہ کہنا مشکل ہے کہ ان کی شاعری ان کی شخصیت کی تفسیر ہے یا ان کی شخصیت ان کی شاعری کی تشریح ہے۔ کیونکہ جب شاعری ان کی شخصیت کی تفسیر ہے، یا ان کی شخصیت ان کی شاعری کی تشریح ہے۔ کیونکہ جب شاعری میں رچائو اور شخصیت میں ٹھہرائوں آجاتا ہے تو شاعری شاعر کی ذات میں گم ہوجاتی ہے اور شاعر شاعری کی پنہائیوں میں تحلیل ہو جاتا ہے۔
 
تنہائی، عدم تحفط، زندگی کی بے معنویت، اخلاقی خلا، ذات کا کرائسس ، فرد کی گمشدگی ، فنا کا خوف، حالات کی یکسانیت، مشینی زندگی کا جبر، اقدار کا انہدام، آج یہ سب ہماری زندگی کے وہ پہلو ہیں جنہوں نے ہمیں جبر واختیار کے تضاد میں اس طرح مبتلا کردیا ہے کہ ہم Schzophranicہو گئے ہیں یا پھر یوں کہیں کہ ہم اپنا تو ازن کھو کر Sleep  Walkersمیں شامل ہوگئے ہیں۔ آئیے دیکھیں ایاز ان کیفیتوں کو، جبر کو کس طرح بیان کرتے ہیں۔
ان کیلئے نہ قبر، نہ کتبے نہ مرشیے
تنہائیوں کی قید میں جوگھٹ کے مرگئے
ہرفرد اپنی ذات میں گم ہوگیا ہے آج
ہرلمحہ بڑھ رہے ہیں وجودوں کے فاصلے
اور ایک بہت مختصرسی، بوٹی سی نظم آج کے المیہ کا ایک نیا منظر پیش کرتی ہے۔
غم والم کے گراں بوجھ کو اٹھا ئے ہوئے
فصیلیں خم ہیں، دروبام سرجھکائے ہوئے
کواڑیں مہربہ لب
کھڑکیاں ہیں سوئی ہوئی
نہ گفتگو نہ ترنم
نہ قہقہوں کی الاپ
کسی کے قدموں کی آہٹ نہ چوڑیوں کی کھنک
اداسیوں کے اندھیروں میں ڈوبی دیواریں
سنارہی ہے کہانی گذرتے لمحوں کی
اور اس تناظر میں شاعر کی آنکھ یہ دیکھتی ہے
یہ تیرگی کا شہر ہے وہ روشنی کا شہر
خوابوں میں بٹ گیا ہے میری زندگی کا شہر
+++
جس موڑ پر رکے نگہ بدگماں اٹھی
یہ اپناشہر ہے کہ کسی اجنبی کا شہر
+++
یہ کس نے دشت کی تصویر آنکھ میں رکھ دی
سکوت ایسا برہنہ نشیں نہیں دیکھا
+++
اس کرب انگیز سناٹے میں ایک بازگشت
 
شکیب ایاز!یہ دلی کی جامع مسجد ہے
پکارتی ہے جو سیڑھی جناب میر کی ہے
+++
اور ریزہ ریزہ ہونے اور بکھرنے کی یہ صورت
تجویز کچھ عجیب سی مجھ کو سزا ہوئی
کوفہ وطن ہوا تو گلی کربلا ہوئی
+++
ندی سنک اٹھی، در ودیوار ڈھ گئی
میرا وجود دیکھ کے پاگل ہوا اٹھی
+++
حال زاریہ ہے کہ
اپنا تو حال میر سے زیادہ خراب ہے
چھت کھل گئی تو ہاتھ بھی سایہ نہ کرسکے
+++
یہ غور کرنے اور محسوس کرنے کی بات ہے کہ پریشان حالی کے عقب سے یہ اشعار طلوع ضرورہوتے ہیں لیکن ان میں پریشان خیال قطعی نہیں صرف حیرت ہے، تحیر ہے ، تاثر ہے کف افسوس ضرور ہے لیکن بصیرت کے ساتھ موجودہے۔
عجیب وقت آن پڑا ہے کہ ہم بادلوں کی اٹکھیلیاں نہیں دیکھتے ، شہروں میں چاندنی نظر نہیں آتی،ہم پرندوں کا رقص نہیں دیکھتے، ان کی زبان نہ سمجھتے ہیں نہ سنتے ہیں ،کلیاں کب چٹکتی ہیں ہم نہیں جانتے، درخت کی چھائوں غائب ہوگئی، ہم ان کے دوست نہ رہے ندیوں کا جلتر نگ سننے کی فرصت ہمیں نصیب نہیں ہے، اب ہم قدرت کو مسخ کرنے میں ہمہ تن مصروف ہیں جنگلوں سے پہاڑوں سے اور ندیوں سے ہم محبت نہیں کرسکتے کیونکہ اب ہم ان سے ڈرتے ہیں، ہمارے خوف نے، ہماری خود غرضی نے، ہماری لالچ نے ہمیں فطرت سے بہت دور پہنچا دیاہے، پھر بھی دھرتی ماں کا رول ادا کرتی ہے، ہمیں ان سب کے باوجود بہت کچھ دے دیتی ہے، اتنا کچھ کہ اب تک ہم پیاسے نہیں مرے ہماری سانسیں قائم ہیںکہ اب بھی پھول کھلتے ہیں ان میں خوشبو قائم ہے پھلوں کے رس اب بھی میٹھے ہیں ہوائیں اب بھی ٹھنڈی ہیں اور درختوں کے سائے تھکے ماندوں کو اب بھی آرام دیتے ہیں ۔ اس طرح عام دنیا کارویہ کچھ ہوتا ہے، زمانے کا چلن اپنا ہوتا ہے شاعر کی چشم باطن کچھ اور ہی دیکھتی ہے، اس کا قرینہ کچھ اور ہوتا ہے اور وہ یوں ہوتا ہے۔
تو اگر انتظار میں ہوتا
سارا منظر شمار میں ہوتا
بوٹا بوٹا قطار میں ہوتا
سبزے اٹھ اٹھ کے جھانکتے ہوتے
سارا نقشہ حصار میں ہوتا
دامن گل ہوا سے ہلتے بھی
شعلہ جاں چنار میں ہوتا
تختہ گل پہ سر تلے ہوتے
کیا مزہ گیرودار میں ہوتا
یہ تو میرے لہو کا سرقہ ہے
ورنہ پھر کیا بہار میں ہوتا
غزل کے اشعار کی بے ترتیبی اور بے ربطگی کے پیش نظر اسے نیم وحشی صنف سخن، کہہ دیا گیا تھا، شکیب ایاز کی یہ اور اس کے علاوہ کئی غزلیںاس موقف کی تردید کرتی ہیں، حفیظ ہوشیار پوری نے ایک موقع پر فرمایاتھا تسلسل غزل کے حسن میں اضافہ کرتاہے بلکہ میں تویہاں تک کہوں گا کہ بہترین شعرائ کی بہترین غزلوں میں غیر شعوری طورپر ایک تسلسل نظر آتاہے۔ غزل میں سب کچھ کہا جاسکتا ہے۔
 
جوش ملیح آبادی نے اصرار کیا تھا اور زوردے کر کہاتھا کہ اعلیٰ شاعری کیلئے حساسیت اور تفکر ان دونوں کا ہونا لازمی ہے ایک کامیاب غزل گو کیلئے ناصر کاظمی نے یہ شرطیں رکھی تھی کہ وہ شاعر ہو سچی بات کرنے کاقائل ہو، واردات اپنی ہو اور اسے اپنے لفظوں کی قیمت معلوم ہو، ان قائم کردہ معیاروں پر بھی شکیب ایاز کے اشعار کھرے اترتے ہیں کہ مشاہدے کی وسعت کے ساتھ ان کے یہاں ایک خاص طرح کاکرب انگیز Internsity   of   feelingہے تسلسل ان کی غزلوں کا غالب عنصر ہے جدت کا دروازہ بند نہیں ہے واردات حددرجہ نجی اور شخصی تا ثر سے لبریز ہیں تفکر کا عمق ہر شعر کیا ہر مصرعہ اور لفظ میں موجود ہے کہ وہ الفاظ کی قیمت، ان کے جوہر، ان کی معنویت اور ان کی نشستوں سے پورے طور سے واقف ہیں یہاں عبدالمجید سالک کے مطابق، زندگی کی تصویر بھی ہے اور تعبیر کے ساتھ تطہیر بھی موجود ہے۔
 
کم لوگوں کوواقفیت ہوگی کہ شکیب ایاز خانقاہ عمادیہ منگل تالاب ، پٹنہ سٹی سے دل و جان کی حد تک وابستہ ہیںاور برسوں سے وہاں کی حاضری ان کے فریضوں میں داخل ہے تخلیہ قلب اور آداب واطوار اور داخل کی طہارت وہیں سے انہیں ودیعت ہیں، نفس کی گھاٹیوں کا قطع ہونا اور قلب صفا سے ثروت مند ہوناوہیں کی دین ہیں ۔تطہیر اور لطیف معنویت سے منور ان اشعار مسلسل کود یکھئے۔
تیری خوشبو کاگہر جان پہ رکھ دیتے ہیں
ہاتھ جلتے ہوئے لوبان پہ رکھ دیتے ہیں
راہ داری سے ذرا باد بہاری گذرے
چادر گل دل ویران پہ رکھ دیتے ہیں
چمن دل پہ گذر جائے لہو کا موسم
اپنا سرہم قد گلدان پہ رکھ دیتے ہیں
تیرے دربار کی چوکھٹ پہ قدم کس کے ہیں
فیصلہ ہم ترے ایمان پہ رکھ دیتے ہیں
یہ صوفیانہ واردات کی کیفیت، اشعار کا سنجیدہ قرینہ اور روحانی تاب یوںہے جیسے کسی خانقاہ میں کوئی دوزانوہو، میں سمجھتاہوں کہ ایسی طہارت کا حق ادا کرنا بھی کار ثواب ہے شاعری جب سچے جذبے اور واردات قلبی جب کسی وجود میں گھل جاتے ہیں اور فن جب تخلیقی سطح پر ثقافتی دستاویز ہوجاتاہے اور ایک ناگزیر مظہرکی صورت اختیار کرلیتاہے تو معنوی اعتبار سے بیان کے ایسے ہی کرشمتے جنم لیتے ہیں۔
سچا شاعر وقت کے آگے اس طرح دیکھتاہے کہ وہ مستقبل کا نقیب بھی کہلا تاہے۔
شکیب ایاز کی شاعری کایہ پہلوان کی نمائندہ نظم بشارت میں بہت واضح ہے۔
مرے ارادے بہت مصمم ہیں
کہ وہ درندہ اگر بڑھا میری تیری جانب
تو اس کی شہ رگ پہ میری نوک قلم بھی ہوگی
جو دوسرے پیچھے آرہے ہیں
بہم بھی ہوں گے 
یہ روز نامے رقم توہوں گے
مضائقہ کیا جوہم نہ ہوں گے
وہیں پہ شاید قیام ہوگا
وہیں پہ خیمہ لگے گااپنا
وہیں پہ سجدہ
وہیں رکوع امام ہوگا
ادب شکیب ایاز کیلئے مراقبے کا درجہ رکھتاہے اور اشعار کہنے میں نظم وضبط کایہ عالم کہ گویا خانقاہ عمادیہ میں وہ زانوئے ادب دہہ کئے بیٹھے ہوں ایسا نہیںہے کہ پریشانیاں اور محرومیاں ان کے دامن سے نہیںلپٹیں لیکن میں نے کبھی ان کے چہرہ پر اس کا کوئی اثر نہ دیکھا گلے شکوے ان سے ہمیشہ دوررہے شگفتگی نے انہیں ہمیشہ روشن رکھا، ان سے ہرملاقات سہل اور گفتگو خوشگوار تر،یک بہ یک نہیں کھلتے آہستہ آہستہ کھلتے ہیں جیسے کوئی کلی کھلتی ہے، چپکے چپکے آہستہ آہستہ باتوں کانرم اور خنک انداز، اکثر ساتھ چلنے کا اتفاق ہوا تو محسوس ہوا کہ ان کے ساتھ راستہ میں زندگی طے کررہاہوں اور اکثر جی چاہا کہ عمر رفتہ کو آوازدی جائے کہ ایسے میں زندگی کثرت نظارہ چاہتی ہے۔
شکیب ایاز کے شعری محاسن پر قبل کئی باتیں آچکی ہیں پھر بھی کہنے کوجی چاہتا ہے کہ ان کے اشعار نیزوں کی طرح بلند ہیں ہوتے بلکہ قطرہ قطرہ دلوں کے تحت الثریٰ میں اترتے چلے جاتے ہیں، ان کی شاعری کااصل حوالہ دردہے ، جومختلف صورتوں میں ان کے تخلیقی سفر میں ساتھ ساتھ چلتاہے اوریہ حقیقت بھی نمایاں ہی نہیں بلکہ حاوی ہے کہ ان کی شاعری روایات کی پوری میراث کو اپنے کاندھوں پر اٹھا کر چلتی ہے۔ ان کے اشعار کے سبھائو اور بہائو دونوںکی ایسی فضاہے جومنفرد ہوتے ہوئے بھی دل کے پاس لگتی ہے جیسے ان میں ہمارے دل کی دھڑکن شامل ہوکہ ان میں پروئے جذبات یاتوہم سے ہوکروہاں تک جاتے ہیں یاوہاں سے ہوکر ہم تک آتے ہیں۔ ہر وہ جس نے دل کے نہاں خانوں میں تخئیل کے جگنو سجائے ہیں جس نے کائنات کی جمالیات کے مختلف پہلوئوں پر فکر کیا ہے جس نے کچھ کھودینے کے تاسف کاذائقہ چکھاہے ، اس کیلئے ان اشعار کے سبھائو اور بہائو اپنے ہیں سچی شاعری کاایک وصف یہ بھی ہوتا ہے اسے شاعری کی ہمنوائی بھی کہتے ہیں جوایسے اشعار کی معنویت سے ہی ابھرتے چلے آتے ہیں اشعار کے فنی مطالبات پرایاز کی طرح کم لوگوں نے دھیان دیاہوگا۔ ایاز اہل توکل میں سے ہیں آکاش وانی (آل انڈیاریڈیو)کی نوکری کو اس طرح چھوڑآئے جیسے کوئی اپنے جسم سے ناپسندکپڑا اتاردیتا ہے اور ادب وتعلیم کو اس طرح گلے لگایا جیسے کھوئی ہوئی دولت مل گئی ہو۔ ہم نے اونچی آواز میں شکیب کو گفتگو کرتے کبھی نہیں سناہے۔ یہ بھی درویش صفتی ہی ہے۔ وہ دنیا میں رہتے ضرور ہیں لیکن دنیا داری کم کم آتی ہے۔
ذوق اس بحر فنامیں کشتی عمر رواں
جس جگہ پر جالگی وہ ہی کنارا ہوگیا
 
 
++++
 
 
You are Visitor Number : 2144