طرحی غزل
احمد علی برقی اعظمیؔ
کیا ہے تم نے جو اُس کی نشانی دیکھتے جاؤ
میں کس کی کررہا ہوں ترجمانی دیکھتے جاؤ
نہ ہوگا کچھ بھی حاصل اب کفِ افسوس ملنے سے
’’کفن سرکاؤ میری بے زبانی دیکھتے جاؤ‘‘
کتابِ زندگی کا ہر ورق ہے خونچکاں میری
مرے جوشِ جنوں کی یہ کہانی دیکھتے جاؤ
تعاقب کررہے ہیں اُس کا یہ خوابوں کے شہزادے
بنے گی اب وہ کس کے دل کی رانی دیکھتے جاؤ
کیا ہے چند لمحوں میں جسے زیر و زَبَر تم نے
یہ آبادی نئی ہے یا پُرانی دیکھتے جاؤ
پڑا ہے یہ شہیدِ عشق بے گور و کفن کیسے
ملا دی کس کی مٹی میں جوانی دیکھتے جاؤ
درخشاں صفحۂ تاریخ پر ہے داستاں ان کی
شہیدوں کی حیاتِ جاودانی دیکھتے جاؤ
ابھی سرسبز تھا جو اب وہ ہے کیسے خزاں دیدہ
بہارِ زندگی ہے آنی جانی دیکھتے جاؤ
میں برقیؔ اعظمی ہوں اُن کے فکر و فن کا گِرویدہ
تغزل میں مرے یہ رنگِ فانیؔ دیکھتے جاؤ
*****************