* نظر اُس حُسن تاباں تک بہ آسانی نہی *
نظر اُس حُسن تاباں تک بہ آسانی نہیں جاتی
مگر جا کر پلٹتی ہے تو پہچانی نہیں جاتی
ہوئی مدت کہ اس نے ناز سے دامن کو جھٹکا تھا
ابھی تک موجۂ گل کی پریشانی نہیں جاتی
مری حسرت نہ پوچھو، شمع سوزاں کی طرف دیکھو
کہ ہے بے آشیاں لیکن پر افشانی نہیں جاتی
جو بستر ہو تو اس در پر، جو تکیہ ہو تو اس در کا
نہیں جاتی اثر فکر تن آسانی نہیں جاتی
٭٭٭
|