* اصول_ عشق سے نا آشنا ہے تو یا میں؟ *
غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
اصول_ عشق سے نا آشنا ہے تو یا میں؟
حقوق پیار کے کرتا ادا ہے تو یا میں؟
وفا کے نام پہ اک داغ_ بدنما ہے کون
وفا کے حسن سے آراستہ ہے تو یا میں؟
کیا ہے میں نے ترا انتظار ہر لمحہ
بھلا کے وعدہ، ہوا غیر کا ہے تو یا میں؟
ملن کے سورگ کی مستی ہوئی ہے کس کو نصب
اکیلے پن کے نرک میں گرا ہے تو یا میں؟
تجھے رہی ہے ہمیشہ تلاش خوشیوں کی
سبھی کے درد میں شامل رہا ہے تو یا میں؟
خطائیں کون کریگا، بشر ہوں میں یا تو
معاف کون کریگا، خدا ہے تو یا میں؟
ہوا ہے رشتہ اگر منقطع تو کیوں جاوید
غلط ہیں دونوں ہی ہم یا تو، یا ہے تو یا میں
**** |