غزل
ڈاکٹر جاوید جمیل
سوئے ارمان پھر جگا کے گئے
دل کو چپکے سے گدگدا کے گئے
دل یہ کہتا تھا ٹھہریں گے اس بار
صرف صورت مگر دکھا کے گئے
حال_دل پوچھتے ہوکیوں ہم سے
ان سے پوچھو جو دل چرا کے گئے
اشک میرے ہیں دوستوں کی شراب
جتنا چاہا، مجھے رلا کے گئے
تھی یہ امید ہاتھ تھامیں گے
وہ انگوٹھا مگر دکھا کے گئے
کاش سن لیتے بات میری بھی
خود سنانا تھا جو سنا کے گئے
ااپنے مقصد میں کامیاب تھے وہ
دل دکھانا تھا، دل دکھا کے گئے
آ گئے تنگ حیلہ جوئی سے
پھر بہانہ نیا بنا کے گئے
ہم کھرے نکلے، پھر بھی غیر رہے
آزمانا تھا، آزما کے گئے
کہہ رہے تھے کرینگے دلجوئی
تھے تو اپنے ہی، دل جلا کے گئے
آتے ہیں دعوتوں میں ایسے بھی
آتے ہی کھایا اور کھا کے گئے
قدر بچپن سے والدین کی کی
ہم جہاں بھی گئے بتا کے گئے
"سارا عالم ہے میری مٹھی میں"
وہ خدا ہو گئے، جتا کے گئے
ہیں وہ لفظوں کی جنگ کے غازی
پھر سے جاوید وہ ہرا کے گئے
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸