غزل
ڈاکٹر جاوید جمیل
جاں! خفا ہو گئی؟
کیا خطا ہو گئی؟
گفتگو حسن سے
برملا ہو گئی
بے وفاؤں سے بھی
کچھ وفا ہو گئی
بے نیازی تری
بد دعا ہو گئی
گھٹتی تکلیف کیا
کچھ سوا ہو گئی
زندگانی مری
کیا تھی، کیا ہو گئی
تھی جو رسی مری
اژدھا ہو گئی
دل کی مظلومیت
بے نوا ہو گئی
دور_ نو میں ادا
بے حیا ہو اگی
معرفت صورتاً
واہمہ ہو گئی
ظلم، اب صبر کی
انتہا ہو گئی
اب یہ کمبخت انا
اک سزا ہو گئی
عشق_جاوید کی
ابتدا ہو گئی
۸۸۸۸۸