غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
آپ اب ہو گئے جیسے کبھی ایسے تو نہ تھے
بے رخی ہوتی تھی، بھولے کبھی ایسے تو نہ تھے
نخرے تو پہلے بھی کرتا تھا مگر پل بھر کو
جان لیوا ترے نخرے کبھی ایسے تو نہ تھے
رہتے تھے وہ ہمہ تن گوش مری باتوں پر
آج کیوں ہو گئے بہرے، کبھی ایسے تو نہ تھے
پہلے معصوم وہ ہوتے تھے، اب آئی تیزی
جیسے اب ہو گئے بچے کبھی ایسے تو نہ تھے
راز کچھ ہوگا جو بدلہ ہے رویہ جاوید
ورنہ بھائی مرے اچھے کبھی ایسے تو نہ تھے
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸