* اس کا مسکن ہو جہاں ایسی گلی ہے ہی نہ *
غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
اس کا مسکن ہو جہاں ایسی گلی ہے ہی نہیں
جستجو جس کی ہے وہ سرخ پری ہے ہی نہیں
ہاتھوں سے جام سنبھلتا نہیں، گر جاتا ہے
کیا مقدر میں مرے بادہ کشی ہے ہی نہیں
ایسا باندھے کہ ٹھہر جانا پڑے تا انجام
آج کی بزم میں وہ جلوہ گری ہے ہی نہیں
میری نسبت سے ہے جس بات پہ ہنگامہ بپا
بات سچ یہ ہے کہ وہ بات مری ہے ہی نہیں
نذر کرتے ہیں اسے جام پہ جام اہل_ غرض
جسکی فطرت میں کہیں تشنہ لبی ہے ہی نہیں
تم جسے دیتے ہو آزادیء انسان کا نام
میرے مذھب میں وہ بے راہ روی ہے ہی نہیں
اقتدا کرنا ہی مقصود ہوا ہے جاوید
مقصد_ زیست میں اب راہبری ہے ہی نہیں |