* تمہارے ذکر کو روشن شہاب کردیں گے *
غزل
ڈاکٹر جاوید جمیل
تمہارے ذکر کو روشن شہاب کردیں گے
تمہارے نام ہم اپنی کتاب کردیں گے
کسے پتہ تھا کہ ماضی کے چند لمحے بھی
ہمارا جینا مسلسل عذاب کردیں گے
مری حیات کے ہرپل کا قرض ہے ان پر
وہ کون کون سے پل کا حساب کردیں گے
وہ ایک خواب ہیں اور خواب خواب ہوتے ہیں
یہ خواب ہم کو مگر نیم خواب کردیں گے
بہت غرور تھا حاضر جواب ہونے کا
پتہ تھا کیا وہ ہمیں لا جواب کردیں گے
دل و دماغ پہ وہ نشہ بن کے چھائے گا
ہم اپنے عشق کو انکی شراب کردیں گے
وہ کوہ_ برف ہیں معلوم ہے مگرجاوید ہم آفتاب ہیں پل بھر میں آب کردیں گے
|