* خوشبو بھی ادھر جائے جس سمت ہوا جائ *
غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
خوشبو بھی ادھر جائے جس سمت ہوا جائے
آندھی سے زمانے کی پھر کیسے بچا جائے
ہے شوق کا یہ عالم، شب در پہ گزاری ہے
کب صبح کو وہ نکلیں، کب پھول دیا جائے
محفل میں جو ملتا ہے، وہ اور بھی قاتل ہے
تنہائی کا گھر میں ہی اب زہر پیا جائے
شورش زدہ بستی ہے، اک شورمسلسل ہے
دن رات بنا سوئے کس طرح رہا جائے
محفوظ ہے رہنا تو ساحل پہ پہنچ فوراً
حالات کچھ ایسے ہیں طوفان نہ آ جائے
پھر وقت کا مرہم بھی جاوید شفا دیگا
سوئی سے تحمل کی زخموں کو سیا جائے
******************** |