* گرمیِ پرواز سے جلتا ہوا پر دیکھتا *
گرمیِ پرواز سے جلتا ہوا پر دیکھتا
گر فرشتہ رفعتِ انساں تک اڑ کر دیکھتا
سب کی آنکھیں رکھّی تھیں گِروی‘ مرے دشمن کے پاس
کون میرے گھر کی بربادی کا منظر دیکھتا
زہر کا رنگ اس کے بھی ہوجاتا حیرت سے سفید
گر کبھی نیلا سراپا میرا‘ شنکر دیکھتا
لے ہی آئی کھینچ کر آدم کو شہروں کی کشش
آخرش کب تک کوئی صحرا سمندر دیکھتا
اجبنی آندھی مجھے ساحل سے لے کر اُڑ گئی
ورنہ میں بھی آگ کے دریا میں جل کر دیکھتا
کیوں ترے لب پر قصیدے ہیں مرے کردار کے
میری خواہش تھی ترے ہاتھوں میں پتھر دیکھتا
**** |