Register
|
Sign in
Bazme Adab
Design Poetry
Afsana
E-Book
Biography
Urdu Shayari
Mazameen
Audio
Urdu Couplet
Popular Video
Search Ideal Muslim Life Partner At www.rishtaonline.org , A Muslim Matrimonial Portal, Registration Free.
Site
Fariyad Azer
Index Page of Shayari
Design Poetry of Fariyad Azer
--: Shayari by Fariyad Azer :--
Total Shayari of Fariyad Azer : 87
تشنگی ایسے لبوں کی کیا بجھا پاتا ف
وہ لے رہا تھا مرا امتحان قسطوں می
لمحہ لمحہ سلگتی ہوئی زندگی کی مسل
شہر آتے ہی وہ بے جھجھک بک گیا
بتوں کے شہر میں ایمان لے کے آئی تھ
اس کی مخالفت کا تو میدان صاف تھا
چھپا رہا تھا مری وحشتوں سے گھر مجھ
نگاہِ تشنہ کو تسکینِ اضطراب تو دے
تھا موم دل تو لوگ ستاتے رہے مجھے
عظمتِ آدمی کو سمجھا کر
نہ روک پائی مری آستین کی خوشبو
وہ زندگی کی آخری تسکین لے گئی
لہجے میں آسمان کی اونچائیاں بھی
وہ دست رس سے دعاؤ ں کی،دور تھا کتن
حسین شہر کا منظر اُسے بلاتا رہا
دشمنوں میں بھی ادائے دوستانہ ڈھون
تپتے صحرا میں سمندر نہیں آنے وال
شدید غم سے میرا کوئی سلسلہ نہیں مل
پھر مفاہیم میں الفاظ کے وسعت آ جا
تصورات کی منزل تو دو قدم پر تھی
یوں ہی سہی چلو کوئی رشتہ بنا رہا
کہیں لب پہ دعاؤں کا اجارہ ہو نہ جا
اُس سے نالاں تھے ’’فرشتے‘‘ وہ خفا کس سے
شرر ذخیرۂ بارود تک پہنچنے کو ہے
اب نگاہوں سے شفق منظر جدا ہونے کو ہ
نہ جانے آگ لگا کر کدھر گئے اپنے
محبتوں کا سنہرا جمال دینا تھا
نہ جانے شہرِ حقائق نے کیا دکھایا ہ
جہاں اک خواب تھا لا منظری کا
نکل بھی جائے وہ اعدا کی گھات سے بچ ک
سیاہ لفظوں بھری داستان کیا دے گا
ادا ہوا نہ قرض اور وجود ختم ہو گیا
جبیں پر جس کے میرا نام ہے وہ گھر نہی
ہوائے شہر یہاں کس طرح چلی بابا
’’خزاں محور‘‘ سے ہٹتا جا رہا ہوں
بند دریا سے بھی برداشت کہاں تک ہو گ
اپنے ہی معنیٰ کا لفظوں پر اثر کوئی
صدیوں کا بن باس لکھے گی اب کے برس بھ
اس کا حصارِ زیست بھی سادہ ہی کچھ لگ
کچھ عجب وسعتِ تقدیر نظر آنے لگی
خدا کا بھی امتحان لینے کی ضد عجب تھ
حدِّ نظر تک اپنے سوا کچھ وہاں نہ تھ
دل تو بس اپنی امیدوں کا سبب جانتا ہ
اُس نے کب کرب کے صحرا میں بسایا ہے م
کلام کرتا تھا میں اُس سے دعا کے لہج
یم بہ یم صحرا بہ صحرا نقشِ جاں جلتا
اُدھر دعا کی سماعتوں کا روایتی آ
وسعتِ صحرا کے آگے آسماں چھوٹا ل«
پڑا تھا لکھنا مجھے خود ہی ’’مرثیہ می
لمحہ لمحہ سلگتی ہوئی زندگی کی مسل
سردی آئی
اہلِ دیدہ میں بھی اب دیدہ ء بیدار ن
دل نے اچھائی، برائی کو بس اتنا سمج
ہلِ دیدہ ہیں بہت ، دیدہء بیدا ر نہی
ذہن میں اس کے کھڑکیاں تھیں بہت
وسعتِ صحرا کے آگے آسماں چھوٹا لگ
جب ذہن ڈھونڈتا رہا فن کی جمالیات
اس قبیلے کے لہو میں ذائقہ اتنا لگا
کیا ہواؤں نے اس درجہ تار تار مجھے
اک عجب تمثیل کے کردار ہو کر رہ گئے
اب مناظر جنگلوں کے بھی ڈسیلے ہوگئ®
وہ لے رہا تھا مرا امتحان قسطوں میں
عجیب عزمِ سفر مختصر سی جان میں ہے
اپنے ہی معنٰی کا لفظوں پر اثر کوئی
صدیوں کا بن باس لکھے گی اب کے برس بھ
اس کا حصارِ زیست بھی سادہ ہی کچھ لگ
ہوا کے حکم کی تعمیل ہونے والی ہے
کچھ عجب وسعتِ تقدیر نظر آنے لگی
خدا کا بھی امتحان لینے کی ضد عجب تھ
سُراغ بھی نہ ملے اجنبی صدا کے مجھے
گرمیِ پرواز سے جلتا ہوا پر دیکھتا
صبح ہوتی ہے تو دفتر میں بدل جاتا ہے
سب اُس کو پڑھ سکیں یہ ضروری نہ تھا م
حدِّنظر تک اپنے سوا کچھ وہاں نہ تھ
دل تو بس اپنی امیدوں کا سبب جانتا ہ
اُس نے کب کرب کے صحرا میں بسایا ہے م
کلام کرتا تھا میں اُس سے دعا کے لہج
یم بہ یم صحرا بہ صحرا نقشِ جاں جلتا
اُدھر دعا کی سماعتوں کا روایتی آس
وسعتِ صحرا کے آگے آسماں چھوٹا لگا
پڑا تھا لکھنا مجھے خود ہی ’’مرثیہ می
لمحہ لمحہ سلگتی ہوئی زندگی کی مسل
यों तो मैं खुद को प्रताड़ित करने स
وہ ایک خواب کی صورت ہوا تھا حائلِ ش
فسانہ جو مری توقیر کا بتاتا ہے
-- نہ ہو گرخوفِ دوزخ اور نہ لالچ بھی ہ
कर के बेदर्द ज माने के हवाले मुझ को
Total Visit of All Shayari of Fariyad Azer : 39944