* اک عجب تمثیل کے کردار ہو کر رہ گئے *
اک عجب تمثیل کے کردار ہو کر رہ گئے
ہم خود اپنی راہ کی دیوار ہو کر رہ گئے
جو مکاں اپنے بزرگوں نے بنایا تھا کبھی
اُس مکاں میں ہم کرایے دار ہوکر رہ گئے
کربلائے وقت کے میدان سے مفرور لوگ
خاندانی غازیِ گفتار ہو کر رہ گئے
دوریاں نزدیکیوں میں ہوگئیں تبدیل جب
جس قدر مشتاق تھے بیزار ہو کر رہ گئے
جیتنے نکلے تھے آزرؔ دشمنِ امت کا دل
دشمنوں کے ہاتھ کی تلوار ہوکر رہ گئے
**** |