تصورات کی منزل تو دو قدم پر تھی
مری انا ہی مرے راستے کا پتھر تھی
کسے خبر تھی نہیں ہے کوئی وجود اس کا
وہ ایک شے جو مری جستجو کا محور تھی
خدا ہی جانے وہ منزل تھی یا سراب کوئی
تمام عمر مسافت مرا مقدر تھی
نہ جانے کیوں میں سناتا تھا بار بار اُسے
وہ ایک بات جو اس کی سمجھ سے باہر تھی
مرے کلام نے آخر جھنجھوڑ ڈالا اُسے
مری غزل ہی مرا آخری پیمبر تھی
خموش، اُداس بلا کی حسیں مگر بے حس
وہ بنتِ حوّا تھی یا شاہکارِ آزرؔ تھی
*************