* اگر نہ زہرہ جبینوں کے درمیاں گزرے *
غزل
٭…………علی سکندر جگرؔ مراد آبادی
اگر نہ زہرہ جبینوں کے درمیاں گزرے
تو پھر یہ کیسے کٹے زندگی کہاں گزرے
مجھے یہ وہم رہا مدّتوں کہ جرأتِ شوق
کہیں نہ خاطرِ معصوم پر گراں گزرے
جنوں کے سخت مراحل بھی تری یاد کے ساتھ
حسین حسین نظر آئے جواں جواں گزرے
ہجومِ جلوہ میں پروازِ شوق کیا کہنا
کہ جیسے روح ستاروں کے درمیاں گزرے
خطا معاف زمانے سے بد گماں ہو کر
تری وفا پہ بھی کیا کیا ہمیں گماں گزرے
خلوصِ جس میں ہو شامل وہ دورِ عشق و ہوس
نہ رائیگاں کبھی گزرا نہ رائیگاں گزرے
اسی کو کہتے ہیں جنت اسی کو دوزخ بھی
وہ زندگی جو حسینوں کے درمیاں گزرے
بہت حسین سہی، صحبتیں گلوں کی مگر
وہ زندگی ہے جو کانٹوں کے درمیاں گزرے
|