* تباہی کا اپنی نشاں چھوڑ آئے *
تباہی کا اپنی نشاں چھوڑ آئے
ورق در ورق داستاں چھوڑ آئے
ہر اک اجنبی سے پتا پُوچھتے ہیں
تُجھے زندگی ہم کہاں چھوڑ آئے
وُہی لوگ جینے کا فن جانتے ہیں
جو احساسِ سُود و زیاں چھوڑ آئے
نکل آئے تنہا تیری راہگذر پر
بھٹکنے کو ہم کارواں چھوڑ آئے
(کیف عظیم آبادی)
|