* رات مہکی ہے گیسوئوں کی طرح *
غزل
کیف عظیم آبادی
رات مہکی ہے گیسوئوں کی طرح
سارا منظر ہے گل رئوں کی طرح
اس کے اٹھنے کا اب سوال نہیں
گر پڑا ہے جو آنسوئوں کی طرح
شب ڈھلے دوڑتی ہے پرچھائیں
دل کی وادی میں آہوئوں کی طرح
میں ازل سے تلاش میں اپنی
جلتا بجھتا ہوں جگنوئوں کی طرح
مجھ کو فرصت تو دے گناہوں کی
میں مقید ہوں سادھوئوں کی طرح
’’ ہے ہوا میں شراب کی تاثیر‘‘
کون گزرا ہے خوشبوئوں کی طرح
٭٭٭
|