* زر د موسم میں کوئی سہارا ڈھونڈیں *
غزل
کیف عظیم آبادی
زر د موسم میں کوئی سہارا ڈھونڈیں
پھر کسی زلف سیہ تاب کاسایا ڈھونڈیں
علم و دانش کے اجالے میں پریشاں ہے دماغ
آئو معصوم جہالت کا اندھیرا ڈھونڈیں
اس امنڈتے ہوئے چہروں کے سمندر میں کوئی
جو شناسا لگے آئو وہ چہرہ ڈھونڈیں
خاک کر ڈالے نہ صدیوں کی کہیں پیاس ہمیں
اپنے سوکھے ہوئے ہونٹوں ہی میں دریا ڈھونڈیں
کیفؔ گذری تھی جہاں اپنے لڑکپن کی بہار
آئو آنگن میں اسی پیڑ کا سایا ڈھونڈیں
٭٭٭
|