* صفحۂ دیر پہ ایک ریت کا صحرا ہوں میں *
غزل
کیف عظیم آبادی
صفحۂ دیر پہ ایک ریت کا صحرا ہوں میں
سب میں شامل ہوں مگر پھر بھی اکیلا ہوں میں
اپنی ہی آگ میں جل کر نہ فنا ہو جائوں
کتنی صدیوں سے ترے قرب کا پیاسا ہوں میں
ایک مکروہ سی تصویر نظر آئی ہے
اپنے اندر کبھی اے دوست جو اترا ہوں میں
جی میں آتا ہے کہ اسی جرم کی تجدید کروں
یعنی جس جرم کا دنیا میں نتیجہ ہوں میں
کون سا شہر مجھے کیفؔ پناہیں دے گا
سنگ آواز کے شہروں سے تو بھاگا ہوں میں
٭٭٭
|