* شکستِ کلفت حالات ہونے والی ہے *
غزل
کیف عظیم آبادی
شکستِ کلفت حالات ہونے والی ہے
اک اجنبی سے ملاقات ہونے والی ہے
در آئے دل میں مرے پھر مہیب سناٹے
اداسیوں میں گھری رات ہونے والی ہے
لبوں پہ کھیل رہی ہے عجیب خاموشی
دلوں کی تہہ میں کوئی بات ہونے والی ہے
چلا ہوں میں بھی وجود اپنا گرد گرد لئے
سنا ہے دشت میں برسات ہونے والی ہے
لرزر رہا ہوں میں مٹی کے ایک گھر کی طرح
نمی ہوا میں ہے برسات ہونے والی ہے
٭٭٭
|