* تنہائی میں خیال کا محور تراش لے *
غزل
کیف عظیم آبادی
تنہائی میں خیال کا محور تراش لے
سوکھے ہوئے لبوں میں سمندر تراش لے
تجھ کو جلا نہ دے کہیں صدیوں کی تشنگی
صحرا میں تو سراب کا منظر تراش لے
اس شہر بے اماں میں تو ممکن نہیں سکوں
پتھر کے سلسلوں میں کوئی گھر تلاش لے
تجھ کو ملے گی راہ میں تنہائیوں کی گرد
خوشبو کا جسم چاند سا پیکر تراش لے
آسان نہیں ہے کیفؔ یہ شیشہ گری کا فن
تو کوہ کن نہیں ہے جو پتھر تراش لے
٭٭٭
|