* جاڑے کی سرد رات تھی روشن الائو تھے *
غزل
کیف عظیم آبادی
جاڑے کی سرد رات تھی روشن الائو تھے
ہم تم تھے اور لمحے بھی ڈالے پڑائو تھے
پھر پھول بن کے مہکے ہیں تنہائیوں میں آج
روحوں پہ داغ داغ جو خواہش کے گھائو تھے
مرجھا سکی نہ شاخِ صداقت کو کوئی آنچ
اس انجمن میں ہم پہ نہ کیا کیا دبائو تھے
اک خود کشی پہ آج یہی تبصرہ سنا
وہ آدمی متین تھا اچھے سُبھائو تھے
اپنی انا کو صاف بچا لے گیا ہے وہ
حالاں کہ راستے میں ہزاروں گھمائو تھے
٭٭٭
|