* پھیلے ہوئے حصار کا سایہ اتر گیا *
غزل
کیف عظیم آبادی
پھیلے ہوئے حصار کا سایہ اتر گیا
کل رات اس کے چہرے کا غازہ اتر گیا
لہروں کو گن رہا تھا جو ساحل پہ بیٹھ کر
دریا میں آج خوف کا مارا اتر گیا
انجام اتصال تھا بے کیفیتوں کا نام
چڑھتے ہوئے جنوں کا دریا اتر گیا
ہر شاخ چیخ چیخ کے خاموش ہو گئی
موسم کی سیڑھیوں سے جو تپا اتر گیا
دیکھا جو رک کے کیفؔ کبھی چاندنی کی طرف
دل میں کوئی حسین دریچہ اتر گیا
٭٭٭
|