* مرے وجود کا جو ہر کھنگال کر لے جا *
غزل
کیف عظیم آبادی
مرے وجود کا جو ہر کھنگال کر لے جا
حصار جسم سے مجھ کو نکال کر لے جا
بہت ملیں گے ابھی راہ میں نشیب و فراز
تو جا رہا ہے تو خود کو سنبھال کر لے جا
رُلا نہ دے کہیں رستے کی تجھ کو تاریکی
خودی میں اپنی طبیعت کو ڈھال کر لے جا
٭٭٭
|