* لرزتا ہوں یوں اپنے مٹی کے گھر میں *
غزل
کیف عظیم آبادی
لرزتا ہوں یوں اپنے مٹی کے گھر میں
کوئی خشک پتا ہو جیسے شجر میں
نگاہوں میں اپنی جگہ دینے والو
بہت گر چکا ہوں میں اپنی نظر میں
کوئی بھیک آنکھوں کی کشکول میں دے
بھٹکتا ہو ں میں خواہشوں کے نگر میں
زمانہ ہوا مر گیا کیفؔ لوگو
کسے ڈھونڈتے ہو بدن کے کھنڈر میں
تباہی کا اپنا نشاں چھوڑ آئے
ورق در ورق داستاں چھوڑ آئے
ہر اک اجنبی سے پتہ پوچھتے ہیں
تجھے زندگی ہم کہاں چھوڑ آئے
نکل آئے تنہا تری رہ گذر پر
بھٹکنے کو ہم کارواں چھوڑ آئے
وہی لوگ جینے کا فن جانتے ہیں
جو احساس ِ سود و زیاں چھوڑ آئے
٭٭٭
|