* بھٹکتے ہیں اور رہ گذر ڈھونڈتے ہیں *
غزل
کیف عظیم آبادی
بھٹکتے ہیں اور رہ گذر ڈھونڈتے ہیں
بہت تیرگی ہے سحر ڈھونڈتے ہیں
جہاں کل جلا تھا کوئی شہر لوگو
اسی راکھ میں اپنا گھر ڈھونڈتے ہیں
تڑپتے ہیں سجدے جبینِ خودی میں
جہاں دل جھکے ایسا در ڈھونڈتے ہیں
مری گفتگو کو جو سمجھے جہاں میں
کوئی ایسا اہلِ نظر ڈھونڈتے ہیں
ہوائوں میں خوشبو ہے کسی کے بدن کی
کسے کیفؔ پچھلے پہر ڈھونڈتے ہیں
٭٭٭
|