* کھلی جو آنکھ میری تو فصیل درد میں ت *
غزل
کیف عظیم آبادی
کھلی جو آنکھ میری تو فصیل درد میں تھا
نشاط خواب کا لمحہ تھکن کی گرد میں تھا
فراز دار سے گذرا پیمبروں کی طرح وہ
ایک شخص جو اب تک حصولِ درد میں تھے
اڑا کے لے گیا وہ بن کے موسموں کا عتاب
وہ ایک خوف جو پوشیدہ برگ زرد میں تھا
٭٭٭
|