* مرے دل کو زخموں کی سوغات دے دو *
غزل
کیف عظیم آبادی
مرے دل کو زخموں کی سوغات دے دو
مری خشک آنکھوں کو برسات دے دو
بھٹکتا رہا ہوں میں صحرا بہ صحرا
مرے دل کو ربطِ خیالات دے دو
فضائوں سے برسو گھٹائوں کی صورت
زمیں کو لباسِ نباتات دے دو
اندھیرے بہت ہیں جدائی کے گہرے
اندھیروں کو شمعِ ملاقات دے دو
زبانِ غزل ہے بہت کیفؔ نازک
زبان غزل کو اشارات دے دو
٭٭٭
|