* جنوں کا عہد ہے یہ وضع اختیار کرو *
غزل
کیف عظیم آبادی
جنوں کا عہد ہے یہ وضع اختیار کرو
لہو کے رنگ سے اندازۂ بہار کرو!!
ضرور آئے گا ملنے کسی بہانے سے
گلی کے موڑ پر اب اس کا انتظار کرو
کرن کرن کو اندھیروں کی بیڑیاں دے دو
نقیبِ شب ہوں میں چاہو تو سنگسار کرو
ابھی توذہن پہ چھایا ہے عالم تشکیک
مرا نہیں کبھی اپنا تو اعتبار کرو!
٭٭٭
|