غزل کیف عظیم آبادی عرصۂ مختصر نہیں گذرا دل کا گونگا سفر نہیں گذرا کسی پتھر کے ہونٹ سرخ نہیں کوئی آشفتہ سر نہیں گذرا جو مری جان پر گذرتا ہے حادثہ وہ ادھر نہیں گذرا ٭٭٭