* راتوں کی تنہائی میں یونہی خواب سن *
غزل
کیف عظیم آبادی
راتوں کی تنہائی میں یونہی خواب سنورتے رہتے ہیں
یادوں کے درپن میں اکثر عکس ابھرتے رہتے ہیں
کون روایت کی میت اب ڈھوئے اپنے کاندھوں پر
کتنے ہی زندہ افسانے روز گذرتے رہتے ہیں
اتنا ہی احسان سمجھ لو جتنا کوئی ساتھ رہا
ریت کی اک دیوار ہیں رشتے بنتے بکھرتے رہتے ہیں
ہنگامہ ہو یا تنہائی اس سے کوئی فرق نہیں
زہر محبت پینے والے قسطوں میں مرتے رہتے ہیں
٭٭٭
|