* چاک گریباں دیکھ کے ہم کو لوگو! کیوں & *
غزل
کیف عظیم آبادی
چاک گریباں دیکھ کے ہم کو لوگو! کیوں حیرانی ہے؟
فصل بہاراں نام ہے جس کا فطرت کی عریانی ہے
آنکھ میں جھانکو غم کو ٹٹولو، دلداری سے بات کرو
ہنستے ہنستے چہرے پر مت جائو دل میں بڑی ویرانی ہے
پلکوں پہ کچھ تارے چمکے زخم تمنا جاگ اٹھا
ایسے مہکی یاد تمہاری جیسے رات کی رانی ہے
آنکھ میں مستی مدار جیسی اور بدن ہے چندن سا
دیکھ کے سندر روپ کسی کا آنکھوں کو حیرانی ہے
چلتے پھرتے لوگوں میں اب جینے کا احساس نہیں
گائوں کا پنگھٹ سونا ہے۔ شہروں میں ویرانی ہے
کیفؔ ! تغیر کا قائل ہوں او ریہ میں نے سوچا ہے
حسن بھی فانی، عشق بھی فانی ، جسم مگر لا فانی ہے
٭٭٭
|