* نشاط و کرب کے احساس سے نکال مجھے *
غزل
کیف عظیم آبادی
نشاط و کرب کے احساس سے نکال مجھے
ستا رہا ہے بہت پھر ترا خیال مجھے!!
بکھر نہ جائوں کہیں خشک پتیوں کی طرح
بہار بن کے خزاں میں ذرا سنبھال مجھے
سیاہ رات میں چھلکے شفق کی رعنائی
دکھائے ذرا آئینہ جمال مجھے!!
بلندیوں سے گروں گا تو ٹوٹ جائوں گا
مرے رفیق! نہ اتنا بھی اب اچھال مجھے
٭٭٭
|