* ڈس چکیں جب مرے دل کوخود میری تنہائ *
غزل
کیف عظیم آبادی
ڈس چکیں جب مرے دل کوخود میری تنہائیاں
شہر غم میں بج اٹھی ہیں دور رتک شہنائیاں
پھول، نغمہ، چاند تارے، جام، صہبا، چاندنی
اک تبسم آپ کااور سینکڑوں رعنائیاں
دے دئیے پھولوں کو کتنے نیلے پیلے پیرہن
معجزے سے کم نہیں ہیں خاک کی انگڑائیاں
اس قدر مانوس تنہائی نہ خود کو کیجئے
چین سے رہنے نہ دیں گی یادوں کی پرچھائیاں
پھر جلی باد بہاری پھر ہوئی صبحِ جنوں
پھر وہی کوئے ملامت پھر وہی رسوائیاں
کیفؔ ! کوئی مجھ سے پوچھے کیا ہے بے خوابی کا لطف
چاندنی راتوں کا جادو اور میری تنہائیاں
٭٭٭
|