* کھلی فضا میں ذرا جان و تن سے لے چلئے *
غزل
کیف عظیم آبادی
کھلی فضا میں ذرا جان و تن سے لے چلئے
مجھے نکال کے سانوں کے بن سے لے چلئے
اندھیری رات میں مشعل بنے گا جس کا خیال
وہ شئے لطیف سی غنچہ دہن سے لے چلئے
جگر میں زخم مسرت نظر میں اشک خلوص
کوئی حسین سا تحفہ وطن سے لے چلئے
نگاہ و دل میں رہے نو ر بن کے جن کا جمال
انہیں چراکے بھری انجمن سے لے چلئے
پھر آنچ آئے نہ تقدیس حسن یوسف پر
بچا کے سازشِ گرگِ دہن سے چلئے
٭٭٭
|