* نفس نفس میں ہوں اک بوئے صد گلاب لئے *
غزل
کیف عظیم آبادی
نفس نفس میں ہوں اک بوئے صد گلاب لئے
میں جاگتا ہوں نگاہوں میں تیرے خواب لئے
ہمارے عہد کے لوگوں کو کیا ہوا یارو
وہ جی رہے ہیں مگر ریت کا سراب لئے
میں بھول سکتا نہیں حسرتِ نظر اس کی
وہ ایک شخص جو گذرا ہے اضطراب لئے
اداس رات کی تاریکیوں نے چھیڑا ہے
اب آبھی جائو نگاہوں میں ماہتاب لئے
یہ چلچلاتی ہوئی دھوپ جل رہا ہے بدن
گذر رہی ہے یونہی حسرت سحاب لئے
٭٭٭ |