* عیش و غم زندگی کے پھیرے ہیں *
غزل
کیف عظیم آبادی
عیش و غم زندگی کے پھیرے ہیں
شب کی آغوش میں سویرے ہیں
میکیدے سے وفا کی منزل تک
ہم فقیروں کے ہیرے پھیرے ہیں
مجھ کو مت دیکھ یوں حقارت سے
میں نے رخ زندگی کے پھیرے ہیں
ان کی زلفوں کی نرم چھائوں میں
زندگی کے حسیں سویرے ہیں
میں ہوں معمار زندگی اے کیفؔ
دونوں عالم کے حسن میرے ہیں
٭٭٭
|