* میں ہوں بھکاری پریم نگر کا مجھ سے م *
غزل
کیف عظیم آبادی
میں ہوں بھکاری پریم نگر کا مجھ سے ملنے آئے کون
میرے لئے آورہ بن کر طنز کے پتھر کھائے کون
عشق ہے کارِ شیشہ و آہن آپ کا کہنا ٹھیک سہی
دل تو ناصح مورکھ ٹھہرا مور کھ کو سمجھائے کون
جرم محبت کر بھی چکے ہیں عہد محبت لے بھی لیا
آپ کی مرضی جو بھی سزا دیں کرکے خطا پچتا ئے کون
سناٹوں نے ہمدردی کی تنہائی ہم رام بنی
کون جو میرے آنسو پونچھے بیٹھ کے جی بہلائے کون
جھوٹ کی قیمت شہرت و عزت، عقل و خرد کی دنیا میں
سچی بات زبان سے کہہ کر دیوانہ کہلائے کون
کیفؔ! بھٹکتے پھرتے ہیں جو جدت کی تاریکی میں
سوچتا ہوں ان بے بصروں کو حسن غزل دکھلائے کون
٭٭٭ |