* شبنمی رنگ میں اٹھتی ہے شرر ہوتی ہے *
غزل
کیف عظیم آبادی
شبنمی رنگ میں اٹھتی ہے شرر ہوتی ہے
کتنی خود دار محبت کی نظر ہوتی ہے
اک ہوس کا رکی کس رخ پہ نظر ہوتی ہے
آئینہ دیکھنے والے کو خبر ہوتی ہے
غم کے پردے میں ہے تکمیل خوشی کا ساماں
شب کی آغوش میں تعمیر سحر ہوتی ہے
آہ کرتا ہوں تو ہوتی ہے محبت بد نام
ضبط کرتا ہوں تو ہر سانس شرر ہوتی ہے
اس کو معلوم ہے کیا ہوتی ہے دل کی قیمت
جس کی ٹوٹے ہوئے شیشوں پر نظر ہوتی ہے
کھل گیا آپ کی دز دیدہ نگاہی کا بھرم
بے تعلق ہی محبت کی نظر ہوتی ہے
روشنی پر بھی اندھیرے کا گماں ہوتا ہے
جب شبستاں غلامی میں سحر ہوتی ہے
زندگی اصل میں ہے سانس کا جادو اے دوست
شمع بجھتی ہے تو اے کیفؔ سحر ہوتی ہے
٭٭٭
|