* زخم دل لے کے جو مہکے ہیں گلابوں کی ط *
غزل
کیف عظیم آبادی
زخم دل لے کے جو مہکے ہیں گلابوں کی طرح
زندگی چاہئے ان خانہ خرابوں کی طرح
غم کی مستی میری آنکھوں میں گھلی جاتی ہے
میں نے آنسو بھی پئے ہیں تو شرابوں کی طرح
میرے چپ رہنے سے چھپتی نہیں دل کی حالت
لوگ چہرہ میرا پڑھتے ہیں کتابوں کی طرح
میرے ہونٹوں کو میسر ہے تیرے ہونٹ کا لمس
میری سانسیں بھی مہکتی ہیں گلابوں کی طرح
ڈھونڈ ہی لے گی انہیں چشم تجسس اے کیفؔ
پردہ گل میں چھپے ہیں جو حجابوں کی طرح
٭٭٭
|