* چھپ کے تنہائیوں میں سوچا ہے *
غزل
کیف عظیم آبادی
چھپ کے تنہائیوں میں سوچا ہے
سسکیاں کون مجھ میں لیتا ہے
کوئی بھی جائے عافیت نہ ملی
ہر طرف آدمی کا صحرا ہے
ہو گیا دل لہو لہو شاید
آج یادوں کا رنگ گہرا ہے
تم کو کیسے پسند آئے گا
جسم سچائیوں کا نیلا ہے
آدمی کا وجود ایندھن ہے
اپنی دوزخ میں آپ جلتا ہے
چھا گئی دھند سی نگاہوں میں
صاحبو! کیا خلوص گہرا ہے
٭٭٭
|