* جسم کے قید سے اک روز گذر جائو گے *
غزل
کیف عظیم آبادی
جسم کے قید سے اک روز گذر جائو گے
خشک پتوں کی طرح تم بھی بکھر جائو گے
تم سمندر کی رفاقت پر بھروسا نہ کرو
تشنگی لب پہ سجائے ہوئے مر جائو گے
وقت اس طرح بدل دے گا تمہارے خد و خال
اپنی تصویر جو دیکھو گے تو ڈر جائو گے
راہ چلتے ہوئے شو کیس کو دیکھا نہ کرو
کرب ہی کرب لئے لوٹ کے گھر جائو گے
٭٭٭
|