* بے اعتباریوں کا بھروسا ملا مجھے *
غزل
کیف عظیم آبادی
بے اعتباریوں کا بھروسا ملا مجھے
ہر شخص اپنے آپ سے سہما ملا مجھے
پھرتے ہیں لوگ ٹوٹی ہوئی شخصیت لئے
جو شخص بھی ملا وہ ادھورا ملا مجھے
اے انقلاب! بول ترا کیا خیال ہے
صدیاں ہیں جس کی زد میں وہ لمحہ ملا مجھے
میں جس کو دیکھتا ہوں وہ اپنے ہی خوں میں
بے اطمینانیوں کا کلیسا ملا مجھے!!!
میں کس کو اپنا کہہ کے بلاتا جہاں میں
ہر آئینہ خلوص کا دھندلا ملا مجھے
٭٭٭
|