* پرانے تار ہیں لیکن وہ لَے وہ ساز با *
پرانے تار ہیں لیکن وہ لَے وہ ساز باقی ہے
ابھی سیّد میں سرداری کا اک انداز باقی ہے
وہ میرے زخم کے منہ کھولتا رہتا ہے محفل میں
اگرچہ میں سمجھتی تھی کوئی ہمراز باقی ہے
مری جانب سے یہ شطرنج کا پہلا پیادہ ہے
کہاں میں دوں گی شہ کو مات ابھی یہ راز باقی ہے
بہت دیکھے زمانے میں نوالے چھیننے والے
مجھے کیا فکر ہو میرا تو چارہ ساز باقی ہے
کسی کے تلخ لہجے کا مجھے احساس کیا نغمہؔ!
فضائوں میں کسی کی مد بھری آواز باقی ہے
*************************** |