* میں نے خلوص برتا ہے اپنی خودی کے سا *
میں نے خلوص برتا ہے اپنی خودی کے ساتھ
مجھ کو دغا پسند نہیں دشمنی کے ساتھ
رکھتی ہوں آسماں کی طرح اس کے سر پہ ہاتھ
کرتی ہوں دوستی بھی اگر میں کسی کے ساتھ
محبوب تیرے شہر کے ہیں لوگ باشعور
کرتے تو ہیں وہ قتل مگر عاجزی کے ساتھ
آکر مری لحد پہ سجائو نہ اتنے پھول
ایسا مذاق کرتے نہیں عاشقی کے ساتھ
رکھتے ہیں سب چھپائے ہوئے آستیں میں سانپ
سب سے ملائو ہاتھ مگر چوکسی کے ساتھ
کیسے نہ میری پہلی نظر کا ہو وہ اسیر
میں نے کیا سلام اسے نازکی کے ساتھ
نغمہؔ اندھیری رات میں پوشیدہ ہے وہ نور
چلنا ہے عمر بھر تجھے جس روشنی کے ساتھ
********************* |