* نشۂ غم میں بہکنے کا یہ انعام ملا *
نشۂ غم میں بہکنے کا یہ انعام ملا
دستِ ساقی سے مجھے بادۂ گلفام ملا
باوفائی کا صلہ خوب زمانے نے دیا
میرا ہی سر مرے محبوب کو انعام ملا
خواہشِ دید تھی جب تک وہ رہا پردہ نشیں
جب تمنا نہ رہی تب وہ سرِ عام ملا
تو ہر اک فرض سے غافل تھا مگر یہ ہے بہت
گھر کے دروازے کی تختی کو ترا نام ملا
مدتوں بعد مری پیاس کی قسمت جاگی
دستِ ساقی سے چھلکتا ہوا اک جام ملا
میری ہر بات پہ چلتی ہے سوالوں کی چھُری
دل کے افسانے کو نغمہؔ یہی انجام ملا
************************* |