* ادائے خلق کی جادوگری کہیں گم ہے *
ادائے خلق کی جادوگری کہیں گم ہے
اب اپنی ذات ہی میں آدمی کہیں گم ہے
وہی ہیں لوگ ، وہی دائرے ہیں رشتوں کے
فقط نباہ کی شائستگی کہیں گم ہے
خلوص و مہر ہے لب پر نہ خاکساری ہے
کہ گفتگو سے بھی اب چاشنی کہیں گم ہے
عدو کے تیر سے ، احباب کی نوازش سے
وفورِ شوق کی وارفتگی کہیں گم ہے
سنائی جاتی ہے پرکھوں کی داستاں لیکن
وہ حسن و عشق کی پاکیزگی کہیں گم ہے
ترے فراق نے وہ حال کردیا میرا
میں جی رہی ہوں مگر زندگی کہیں گم ہے
ترے بغیر ہے بزمِ سخن مری بے نور
کہ آج نغمہؔ کی وہ نغمگی کہیں گم ہے
******************** |