* دشواریوں میں لپٹے سبھی راستے ملے *
دشواریوں میں لپٹے سبھی راستے ملے
قدموں کے درمیان بہت حادثے ملے
اپنی غرض سے ہم نہ گئے آج تک کہیں
ہم جس سے بھی ملے ہیں ترے واسطے ملے
جب وقت تھا بُرا تو کوئی ہم نفس نہ تھا
مشہور ہوگئے تو بہت رابطے ملے
جن کی نظر میں کوئی حقیقت نہ تھی مری
مجھ سے ہی مل کے ان کو نئے راستے ملے
آئینۂ حیات پہ پتھر اچھالنا
ہرسو تمہارے شہر میں یہ مشغلے ملے
کس طرح خواہشوں کے سفر کا ہو اختتام
خواہش سے خواہشوں کے جڑے سلسلے ملے
بچپن سے میں نے دیکھا ہے گھر گھر میں یہ مزاج
رشتوں کے بیچ دل کے بہت فاصلے ملے
انسان جن کو جھیل رہا ہے بہر نفس
نغمہؔ کی شاعری میں وہی مسئلے ملے
********************* |